بوجھ اپنا بھی بار لگتا ہے
’’اِک سِتم ہے شکستہ پا ہونا‘‘
مودی حکومت کی لاپتہ کارکردگی
مرکز میں اقتدار حاصل کرنے اور 10 ماہ سے حکمرانی انجام دینے کے بعد بی جے پی کا خیال ہے کہ اس نے بہت بڑی کامیابی حاصل کرلی ہے لیکن دوسری طرف دارالحکومت دہلی میں عام آدمی پارٹی کی کامیابی نے بی جے پی خاص کر وزیراعظم نریندر مودی کی بلند ہوتی ساکھ کو دھکہ پہونچایا ہے ۔ اب دونوں پارٹیوں کے درمیان لفظی جنگ شروع ہوگئی ہے تو یہ سیاسی فطرت کاتقاضہ ہے۔ عدلیہ کے بارے میں وزیراعظم مودی کے ریمارکس کے بعد عام آدمی پارٹی نے اس طرح کی تنقیدوں کو قانون کی توہین قرار دیا ہے۔ مودی حکومت کو اپنی کمزوریوں کااچھی طرح علم ہے لیکن ان کمزوریوں کے باوجود وہ بی جے پی کی قومی عاملہ اجلاس میں وزیراعظم مودی نے خود کو حاضرین کے ساتھ ساتھ بی جے پی کے ہر بڑے چھوٹے لیڈر پر حاوی ہونے کی کوشش کی ۔ آج بی جے پی میں بزرگوں کو اہمیت نہیں دی جارہی ہے۔ ایل کے اڈوانی اور مرلی منوہر جوشی کیلئے بی جے پی کے اہم اجلاسوں کے دروازے بند کردیئے گئے ہیںتو یہ تبدیلی پارٹی کے اندر فرد واحد یعنی نریندر مودی کی بات کو اہمیت دی جارہی ہے ۔ ہندوستانی اکثریتی طلبہ کے ذہنوں میں ایک قوم یعنی ہندو قوم ہونے کا ایقان پیدا کرکے ملک میں مذہبی منافرت پھیلانے کی مہم کے روح رواں بننے والے وزیراعظم مودی کو اب عدلیہ کی کارکردگی بھی مشکوک دکھائی دے رہی ہے ۔ بی جے پی نے ملک کی معصوم ہندو اکثریتی آبادی کو اپنے وجود کے اصل مقاصد کا احساس دلاکر ہندو طبقہ کے مفادات کا تحفظ کرنے والی پارٹی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے ۔ اس حکمت عملی کا مقصد عوام کے 10 فیصد زائد ووٹ لیتے ہوئے اکثریتی طبقہ کی مدد سے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنا ہے ۔ یہی حکمت عملی گجرات میں بھی استعمال کی گئی تھی اس لئے کانگریس کے حق میں صرف 3 فیصد ووٹ آئے تھے ۔ بی جے پی نے میڈیاکی مدد سے ہندو اکثریتی طبقہ کے ذہنوں میں غلط پروپگنڈہ کو اتنی شدت سے اچھالا کہ عوام کی اکثریت اسے مودی کی ترقی کا کرشمہ متصور کرنے لگی اور گجرات کو ملک کی دیگر ریاستوں کے تقابل میں سب سے زیادہ خوشحال اور ترقی یافتہ ریاست کے طورپر پیش کیا گیا ۔ اب حکمرانی کے 10 ماہ بعد بنگلور میں منعقدہ بی جے پی کی قومی عاملہ اجلاس میں بھی نریندر مودی حکومت کی کارکردگی کے جھوٹ کو بہترین کارکردگی کا نام دے کر ناکامیوں کو پوشیدہ رکھنے کی کوشش کی گئی ۔ درحقیت کسی بھی حکومت کی کارکردگی کاپیمانہ اس کی ناکامیوں اور کامیابیوں کے ذریعہ ناپا جاتا ہے۔مودی حکومت کی ناکامیوں کاکوئی تذکرہ نہیں کیا گیاصرف کامیابیوں کا ہی ڈھنڈورہ پیٹا جارہا ہے ۔ پارٹی کو ہندوتوا نظریہ سے اٹوٹ طورپر وابستہ ہونے کاثبوت دینے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے۔ بی جے پی کی رکنیت سازی مہم کے علمبردار امیت شاہ نے مودی کو ہیرو بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ہے ۔ امیت شاہ نے اعلان کیاکہ انھوں نے پارٹی کی رکنیت سازی مہم کے ذریعہ 10 کروڑ عوام کو رکن بنایا ہے تو دنیا کی سب سے بڑی رکنیت رکھنے والی پارٹی بن گئی ہے ۔ امیت شاہ کو کسی نے کچھ ایسا ہی خیال دیدیا ہے کہ وہ سوتے جاگتے اچانک ان کے کانوں میں ایک ایسی آواز گونجتی ہے کہ ’’میں نے ہی پارٹی کو مضبوط بنایا ہے ‘‘۔ جس پارٹی کی بنیادوں کی آبیاری اڈوانی ،مرلی منوہر جوشی اور دیگر قائدین نے کی تھی ان تمام کو پس پردہ کردیا گیا ۔ سیاسی پارٹیوں میں بزرگوں کے ساتھ اس طرح کا برتاؤ کرنے والی بی جے پی واحد پارٹی بن گئی ہے ۔ آج بی جے پی نے اپنی کامیابی کی ’’مصنوعی فضاء ‘‘ بناکر مودی کو اس کامیابی ـکا خالق قرار دیاہے تو آگے چل کر ہوا کے دوش پر جو سیاسی تبدیلیاں آئیں گی اس میں امیت شاہ اور مودی کا کیا مقام رہ جائے گا یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ مگر افسوسناک سیاسی فضاء کی ابتری یہی ہے کہ وزیراعظم مودی نے اقتدار کے نشہ میں اپنی پارٹی کے بزرگوں کے ساتھ ساتھ قانون عدلیہ کی بھی توہین کرنی شروع کی ہے۔ عوام الناس کے فیصلہ سازی کے اختیارات کو کوئی بھی سیاسی لیڈر اور پارٹی چیلنج نہیں کرسکتی مگر بی جے پی نے اپنے رائے دہندوں کی مہربانیوں اور احسانوں کو ٹھیس پہونچائی ہے تو آئندہ عوام یا رائے دہندے اپنے اجتماعی دانش کا مظاہرہ کرکے مودی اور ان کی پارٹی کو سبق سکھاسکتے ہیں۔ حقائق کو بدلا نہیں جاسکتا ،بی جے پی اور اس کے قائدین کو عوام کے ساتھ دھوکہ کرنے کی کوئی ممانعت نہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ عوام اپنے دھوکہ بازوں کو کبھی معاف نہیں کرتے ۔ اگر کسی کو یہ غلط فہمی ہیکہ مودی حکومت کارکرد ہے اور لوگوں کو فوری اور بہترین حکمرانی مل رہی ہے تو اس کا اندازہ بھی وقت آنے پر عوام ہی کریں گے ۔