مودی حکومت کا ایک سال

تم شہر میں شہرت کے طلب گار ہو، لیکن
دیکھا ہے کبھی خود کو زمانے کی نظر سے
مودی حکومت کا ایک سال
حکمت اور ویژن سے محروم سیاسی قیادت عوام کی مشکلات پر کبھی غور نہیں کرے گی۔ لمحہ لمحہ اور یومیہ حکمرانی کرنے والے قائدین مستقبل کی منصوبہ بندی سے بھی قاصر ہوتے ہیں۔ مرکز میں نریندر مودی زیرقیادت بی جے پی حکومت کی ایک سالہ کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو عوام ہنوز اچھے دن کے انتظار میں ہیں۔ نریندر مودی حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ عوام کیلئے اب اچھے دن شروع ہوچکے ہیں اور یہ کہ اب تک ہندوستان میں رہنے والوں کے سر شرم سے جھک جایا کرتے تھے لیکن ان کی حکومت آنے کے بعد ہر شہری کا سر فخر سے اٹھ رہا ہے۔ ہندوستان کی جمہوریت کا یہی حسن ہیکہ عوام جس کو چاہتے ووٹ دے کر منتخب کرتے ہیں تو وہ اپنی ہی ’’میں میں‘‘ کرتا رہتا ہے اور مسائل بڑھتے رہتے ہیں۔ عوام ہنوز مودی کے وعدوں کی تکمیل کا انتظار کررہے ہیں۔ کالے دھن کو واپس لاکر ہر شہری کے اکاونٹ میں 15 لاکھ روپئے جمع کرانے کا وعدہ کب پورا ہوگا۔ یہ شدت سے محسوس کیا جارہا ہے۔ سابق کی حکومتوں کی طرح مودی حکومت میں بھی اسکامس ہورہے ہیں۔ مودی کے بااعتماد ساتھی نتن گڈکری پر الزامات عائد ہورہے ہیں کہ ان کی وزارت میں اسکامس ہوئے ہیں۔ کالے دھن کے معاملہ میں بھی گڈکری کا شردپوار سے سازباز ہے۔ واشنگٹن میں گجرات کے ادانی گروپ کو مصروف رکھا گیا ہے۔ سڈنی اور بیجنگ میں بھی اس گروپ کو نریندر مودی کے دورہ کے ہمراہ ساتھ رکھا گیا۔ سرمایہ کاری کے لئے کوشاں مودی حکومت کو اپنے ملک اور عوام کے لئے سرمایہ حاصل کرنے سے زیادہ خانگی کمپنیوں کو سرمایہ دار بنانے کی فکر ہے۔ مودی کے بارے میں یہ عام ہورہا ہیکہ وہ کارپوریٹ گھرانوں کے ہمدرد ہیں اور ہر دن بیرونی دورہ پر رہتے ہیں۔ ملک کی حالت کو دگرگوں موقف میں چھوڑ کر صرف بیرونی دوروں سے ہی کچھ حاصل کیا جارہا ہے تو آنے والے دنوں میں ہندوستانی عوام کو بہت بڑے خسارہ سے دوچار ہونا پڑے گا۔ کیوں مودی حکومت صرف ان وزراء کے اشاروں پر چل رہی ہے جن کا اس ملک کی معاشی ترقی سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ مودی کی حکومت میں مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی اولین پالیسی پر روزاول سے عمل کیا جارہا ہے۔ مودی کے وزیراعظم بنتے ہی ان کی پارٹی کی اتحادی پارٹی شیوسینا کے ایم پی نے رمضان کے دوران ایک روزہ دار کو زبردستی روٹی کھلائی تھی۔ کل ہی ایک مسلم ایم بی اے طالب علم کو ممبئی کی ڈائمنڈ کمپنی نے مسلمان ہونے کی وجہ سے ملازمت دینے سے انکار کردیا ہے۔ واقعات کے پیچھے آر ایس ایس کا ذہن کام کررہا ہے تو آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کو مدر ٹرسیا کی فلاحی حدمات پر بھی شک و شبہ کا اظہار کرنے کی کھلی چھوٹ مل گئی ہے۔ موہن بھاگوت نے مدر ٹرسیا کے خیراتی ادارہ پر شبہ ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہاں تبدیلی مذہب کا مشن چلایا جاتا ہے۔ انسانوں کی خدمت کرنے والوں پر تہمت لگا کر آر ایس ایس نے ملک کی سیکولر تہذیب کو تار تار کردیا تھا۔ مختلف ریاستوں میں گائے کے گوشت پر پابندی کے ذریعہ لاکھوں افراد کا روزگار متاثر کردیا گیا۔ انڈرورلڈ ڈاون داؤد ابراہیم کی حوالگی کے تعلق سے وزارت داخلہ کے بیانات نے بھی مودی حکومت کی بدنامی کو عام کرنے میں مدد کی ہے۔ حالیہ تبدیلیوں کے درمیان دارالحکومت دہلی میں عام آدمی پارٹی کا مودی حکومت کو زبردست شکست دینا بھی ایک بہت بڑا دھکا ہے۔ گذشتہ سال عام انتخابات میں مودی کی جانب سے جو بات اٹھائی گئی تھی وہ ایسی نہیں ہے کہ نظرانداز کردی جائے۔ عوام کی خوشحالی کا نعرہ ہندوستانی سیاست میں ہمیشہ پھانسی بن کر چبھتا رہتا ہے مگر حکومت ہر دور میں عوام کی خوشحالی سے زیادہ اپنے لیڈروں کی خوشحالی کی راہیں کشادہ کرتی ہے۔ مودی حکومت کی طرح ہر کوئی لیڈر قادرالکلام تو نہیں ہوسکتا کہ اتنا جھوٹ بولا جائے کہ سچ کا گماں ہوجائے لیکن عوام بھی اچھی طرح جان چکے ہیں کہ مودی نے ان کے سامنے بڑے سے بڑا جھوٹ بولا تھا۔ ہندوستان کی 66 سالہ تاریخ کو شروع سے دیکھا جائے تو الزامات، دشنام طرازیوں اور بہتان کے ذریعہ عام کو گمراہ کیا گیا ہے۔ ہندوستان کی معاشی ترقی کو دو ہندسی بنانے کا عزم رکھنے کے باوجود یہ معاشی شرح یوں ہی رینگ رہی ہے۔ حکومت نے ضروری اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کو روکنے کیلئے بھی سماج کے حق میں خاص کام نہیں کیا ہے۔ پٹرولیم اشیاء کی قیمتوں میں عالمی کمی کے رجحان کا فائدہ اٹھانے کے بعد اب پٹرول کی قیمت میں اضافہ کیا جارہا ہے۔ کرپشن کے خاتمہ کیلئے مرکز نے صرف دوڑ دھوپ کا مظاہرہ کیا ہے۔ مودی حکومت نے گذشتہ ایک سال کے دوران اچھی حکمرانی کے مظاہرہ کی تشہیر ضرور کی ہے اس کی تشہیری سیاست کو کامیاب قرار دیا جاسکتا ہے۔ خارجی پالیسیوں پر بھی اس کا مبہم موقف دکھائی دیتا ہے۔ سماجی رابطہ کاری کے نام پر وہ تبدیلی مذاہب کیلئے گھر واپسی جیسے پروگرام منعقد کرنے سنگھ پریوار کو کھلی چھوٹ دی گئی ہے۔ ارون جیٹلی نے پوری صفائی اور پراعتمادی کے ساتھ مودی حکومت کی اچھائیوں کو پیش کرتے ہوئے دیانتدار عوام کیلئے ایک دیانتدار حکومت کا نعرہ دیا ہے تو آنے والے مہینوں میں عوام کے سامنے یہ سچائی بھی منکشف ہوگی کہ مودی حکومت نے ان کے حق میں کس حد تک دیانتداری کا مظاہرہ کیا ہے۔
سڑک حادثات میں ہندوستان سرفہرست
ہندوستان میں سڑک حادثوں کے واقعات دیگر ملکوں کے مقابل زیادہ پائے جاتے ہیں۔ سڑکوں کی تعمیر و سہولتوں اور ٹریفک کے اصولوں کے فقدان کے باعث سڑک حادثہ میں انسانی جانوں کا اتلاف افسوسناک حد تک بڑھ رہا ہے۔ سپریم کورٹ نے اس سلسلہ میں مرکز اور ریاستوں کے درمیان تعاون عمل کی کمی پر تنقید کرتے ہوئے دونوں فریقین کی سرزنش کی ہے۔ حکومتوں کے پاس سڑک حادثوں کا ڈاٹا بھی دستیاب نہیں ہے۔ سپریم کورٹ نے روڈسیفٹی پر ایک کمیٹی کا تقرر عمل میں لایا تھا۔ اس کمیٹی کی رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہیکہ سڑک حادثوں میں ہونے والی اموات میں ہندوستان دنیا میں سرفہرست ہے۔ سپریم کورٹ کے سابق جج کے ایس رادھا کرشنن کی زیرقیادت 3 رکنی پیانل کا کہنا ہیکہ سڑکوں پر چلنے والی موٹر گاڑیوں میں 70 تا 75 فیصد موٹر سیکل گاڑیوں کا کوئی انشورنس نہیں ہوتا۔ اس مسئلہ پر سنگین کوتاہیاں کی جاتی ہیں۔ تمام ریاستوں میں روڈ سیٹفی قوانین اور اقدامات نہیں کئے جاتے۔ تشویشناک بات تو یہ ہیکہ حادثات والے مقامات پر پولیس اور متعلقہ حکام توجہ نہیں دیتے۔ ایسے حادثات والے مقامات پر کڑی نظر رکھی جانی چاہئے۔ دونوں شہروں حیدرآباد اور سکندرآباد کی سڑکیں بھی دن بہ دن انسانی جانوں کیلئے خطرناک بنتی جارہی ہیں۔ آوٹر رنگ روڈ پر موٹر سیکل حادثات ہوں یا کار حادثات میں اضافہ روڈ سیفٹی اور رفتار پر نگرانی کے فقدان کا نتیجہ ہے۔ شہروں میں فٹ پاتھس پر ناجائز قبضوں کی وجہ سے راستہ چلنے والوں کو مجبوراً سڑک کا استعمال کرنا پڑ رہا ہے۔ حکومت کی ذمہ داری ہیکہ وہ فٹ پاتھس کو راہروؤں کیلئے خالی رکھے۔ انسانی جانوں کی سلامتی کو یقینی بنانے کیلئے ٹریفک پولیس اور دیگر محکموں کو منصوبہ کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔