وزیراعظم نریندر مودی ساری دنیا میں ایک بنیاد پرست ہندو لیڈر کی حیثیت سے متعارف ہوئے ہیں۔ ان کے برسراقتدار آنے کے فوری بعد ہندوستان بھر میں اقلیتوں کے خلاف تشدد، مساجد، گرجا گھروں پر حملے’ گھر واپسی‘ تبدیلی مذہب کے ذریعہ فرقہ پرستوں کے پروگراموں پر خاموشی اختیار کرنے کے بعد اب انہوں نے ان واقعات پر لب کشائی کرتے ہوئے اپنی حکومت کی ترجیحات کا اعلان کیا ہے۔ وزیراعظم مودی نے ملک میں ہر شخص کو اپنی پسند کے مذہب پر عمل کرنے کی مکمل آزادی ہونے کی وکالت کی ہے۔ کل تک ان پر تنقیدیں ہورہی تھیں کہ انہوں نے بی جے پی اور اس کی محاذی تنظیموں کی شرانگیزیوں پر خاموشی اختیار کرلی ہے۔ اقلیتوں پر حملوں میں اضافہ پر انہوں نے کچھ نہیں کیا تھا۔ بی جے پی حکومت تشکیل پانے کے بعد مذہبی منافرت میں اضافہ ہوا۔ آر ایس ایس اوراس کی محاذی تنظیموں نے کھلے عام عیسائیوں اور مسلمانوں کو ہندو بنانے کا دعویٰ کردیا تھا۔ اس کے بعد انسانی حقوق کی تنظیموں، انصاف پسندوں، سماجی بہبود کے کارکنوں نے وزیراعظم مودی کی خاموشی پر سوال اٹھاکر تنقید کی تھی۔ وزیراعظم نے اپنی پارٹی کی محاذی تنظیموں کی نفرت انگیز مہم کا کوئی سخت نوٹ نہیں لیا ہے۔
اب اچانک مودی نے ملک میں دیگر مذاہب کے احترام کی بات کی ہے تو یہ دہلی انتخابات میں پارٹی کی بدترین شکست سے حاصل ہونے والے درس کا نتیجہ ہوسکتا ہے۔ دہلی میں عیسائی برادری کی جانب سے منعقدہ ایک تقریب میں وزیراعظم نے اپنی حکومت کے مقاصد کو بیان کیا ہے جبکہ اسی دارالحکومت میں پانچ گرجا گھروں کو نشانہ بنایا گیا۔ دہلی کے نتائج نے مودی اور ان کی پارٹی کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ ان کی حکومت کے تعلق سے عام تاثر کو ختم کرنا ہوگا کہ یہ حکومت ہندو انتہا پسند تنظیموں کی پشت پناہی کررہی ہے۔ وزیراعظم نے یہ بیان ایک ایسے وقت دیا جب آر ایس ایس کے سربراہ نے ایک دن قبل ہی کانپور میں تنظیم کے اجلاس کے دوران ہندوؤں میں اتحاد کی پرزور حمایت کی تھی اور کہا تھا کہ ہندوستان میں ہندو سماج کو مضبوط بنانے کے لئے کسی بھی حد تک کوشش کی جانی چاہئے۔ حکومت پر لگنے والے ہندو انتہا پسندی کے داغ کو مٹانے کیلئے مودی نے مذہب کی آڑ میں حکمرانی کرنے سے گریز کا فیصلہ کیا ہے تو یہ ایک اچھی تبدیلی ہے۔ وزیراعظم مودی کو اپنے قول کے مطابق ملک میں ہر شخص کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی مکمل آزادی دینی چاہئے۔ اقلیتوں کی جان و مال کا تحفظ ایک سکیولر ہندوستان کے سربراہ کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ مودی نے اگر صاف دلی سے یہ بات کہی ہے تو اس کا خیرمقدم کیا جائے گا کہ ان کی حکومت ہر مذہب کا یکساں احترام کرے گی۔ کسی بھی وجہ سے کسی مذہب کے خلاف تشدد برداشت نہیں کرسکتے۔
وزیراعظم کا جذبہ قابل قدر ہے، اگر وہ اپنی بات میں پکے اور سچے ہیں تو انہیں اپنی ریاست گجرات کے مسلم کش فسادات کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے اور انہیں سزا دینے میں پیچھے نہیں ہٹنا چاہئے۔ اگر وہ ایمان داری سے گجرات مسلم کش فسادات کا جائزہ لیتے ہیں تو بحیثیت ایک حکمراں وہ خود کو بھی خاطی متصور کریں گے۔ ان کا ضمیر اگر ملامت کرنے لگے تو وہ انہیں اقتدار پر برقرار رہنے کی اجازت نہیں دے گا۔ اگر واقعی وزیراعظم مودی کو ملک میں اقلیتوں کی جان و مال اور ان کے عقائد کے تحفظ کی فکر ہے تو انہیں سب سے پہلے اپنے محاسبہ کی ضرورت ہوگی کیونکہ نریندر مودی نے اپنی تقریر کے ذریعہ اتنی سخت اور صاف زبان کا استعمال کیا ہے کہ ان کی باتوں سے یہ یقین ہوجائے کہ واقعی وہ بدل گئے ہیں اور ان میں ایک انصاف پسند، دیانت دار حکمراں کا جذبہ پیدا ہوا ہے تو مذہبی اقلیتوں کی جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے گا۔ وزیراعظم مودی نے لوک سبھا انتخابات کا مقابلہ خالص ترقی کے ایجنڈہ پر کیا تھا لیکن تشکیل حکومت کے بعد ان کی ترقی کے ایجنڈہ پر ہندو بنیاد پرستوں کا ایجنڈہ غالب آگیا جس سے حکومت کی بدنامی ہوئی۔ عالمی سطح پر حکومت کے تعلق سے یہی تاثر پایا جاتا ہے کہ مودی ایک ہندو بنیاد پرست حکومت کی قیادت کررہے ہیں جس کے تحت اقلیتوں کے ساتھ کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ جب عالمی سطح پر ہندوستان کی شبیہ یوں بگڑتی ہے تو اس کے لئے بی جے پی اور مودی ہی ذمہ دار سمجھے جائیں گے لہٰذا دونوں کو موجودہ حالات کے تناظر میں اپنی حکمت عملی پر نظرثانی کرنی ہوگی جس کے بعد اقلیتوں کے لئے کیا جانے والا کام دیانت داری سے انجام دیا جاسکے گا۔ اگر مودی کی زبان میں پھول ہے تو اس کو کھلنے دیجئے، اگر شرر ہے تو یہ پھر بھڑکے گی۔ ان کے انداز بیان میں طرح طرح کے رنگ دکھائی دیئے ہیں۔ اس ملک میں طلب کے رنگ تو بہت زیادہ ہیں، بنیادی مطالبہ یہی ہے کہ سکیولر ملک میں کہیں لب و عارض پر سرخی کی جھلکی اور ایمان داری کی مہک تو دکھائی دے۔