خواب جب ٹوٹتے ہیں کرچیاں چبھتی ہیں ضرور
تم نے جب خواب دکھائے ہیں چبھن بھی سہنا
مودی حکومت اور ہنی مون
وزیر اعظم نریندر مودی کو بالآخر یہ شکایت لاحق ہوگئی ہے کہ ان کی حکومت کو عوامی مسائل کی وجہ سے اقتدار سنبھالتے ہی مصروف ہوجانا پڑا ہے اورانہیں اقتدار کے مزے لوٹنے اور اس سے محظوظ ہونے کاموقع نہیں مل سکا ہے ۔ نریندر مودی نے یہ شکایت اپنی حکومت کے ایک مہینے کی تکمیل کے موقع پر کی ہے ۔ انہوںنے اس بات کا ادعا کیا کہ ہرحکومت کواقتدار سنبھالتے ہی کچھ دن سنبھلنے اورسدھرنے کا وقت ملتا ہے اورحکومت اقتدارکی مراعات سے لطف اندوز ہونے کے بعد عوام کی فلاح و بہبودکیلئے سرگرم ہوتی ہے لیکن ان کو اس طرح کاموقع نہیں مل سکا ہے کیونکہ اقتدارسنبھالتے ہی اسے عوامی کاموں کیلئے مصروف ہوجانا پڑاہے ۔ انہوںنے یہ بھی ادعا کیا کہ اقتدار سنبھالتے ہی ان کی حکومت کو اپوزیشن کی تنقیدوںکا سامنا کرنا پڑا ہے حالانکہ ان تنقیدوںکی بظاہرکوئی وجہ نہیں تھی ۔ مودی نے اپنے بلاگ پر کہا کہ سابقہ حکومتوںکو 100دن کا موقع تک ملا تھا بلکہ بعض حکومتوںکواس سے زیادہ وقت تک اقتدار کے مزے لوٹنے کاموقع ملا تھا لیکن ان کی حکومت پراندرون سو گھنٹے تنقیدیںشروع ہوگئی تھیں۔ مودی کا یہ تبصرہ حالانکہ ایک مہینے کی تکمیل پر سامنے آیا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ مودی حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی چندگھنٹوںکے اندر ہی متنازعہ مسائل کوچھیڑنے کی کوشش کی تھی ۔ انہوںنے اپنے بلاگ پرکئے گئے تبصرے میںاس کا کوئی ذکرکرنامناسب نہیںسمجھا۔ دفتر وزیراعظم کے منسٹر آف اسٹیٹ نے فوری تبصرہ میں کہا تھا کہ بی جے پی زیرقیادت این ڈی اے حکومت جموںوکشمیر کوخصوصی موقف دینے والے دستور ہند کے دفعہ 370 کو حذف کرنے کی کوشش کریگی ۔ یہ تبصرہ حکومت کی متعصب ذہنیت کو ظاہر کرنے کیلئے کافی تھا ۔ہندوستان کی تاریخ میںاس دفعہ کوحذف کرنے کی کسی بھی حکومت نے کوشش نہیںکی تھی ۔ لیکن مودی نے اقتدار سنبھالتے ہی آر ایس ایس کے ایجنڈہ پر عمل آوری کرنے کا اعلان کردیا تھا اور اس پر تنقید ہونا یا اس کی مخالفت ہونا ایک فطری عمل تھا اورمودی کواس پربھی اعتراض ہونے لگا ہے۔یہ ذہنیت جمہوری عمل کے مغائرکہی جاسکتی ہے کیونکہ جمہوریت کی بقا کیلئے حکومت کے کام کاج پرنظر رکھنے اپوزیشن کاہونااور اسکے تبصرے اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔
نریندر مودی نے اپنے تبصرے میںیہ نہیںکہا کہ مرکز میں نئی حکومت کو اقتدارسنبھالے حالانکہ ایک مہینہ بھی نہیںہوا تھا کہ اس نے عوام پرزائدمعاشی بوجھ عائدکرناشروع کردیاہے۔ ڈیزل کی قیمتوںمیںماہانہ اضافہ کے سلسلہ کودوبارہ بحال کردیاگیاہے۔اسکے علاوہ گیس کی قیمتوںمیںاضافہ کرنے کیلئے حکومت بے چین نظر آتی ہے ۔ اس معاملہ میںاس پرکارپوریٹ حلقوںکادباوواضح طورپر محسوس ہونے لگا ہے ۔اس کے علاوہ حکومت نے اقتدارسنبھالنے کے چنددن کے اندرریل کرایوںمیںاضافہ کردیا ۔ یہ اضافہ بھی 14.2 فیصد کا بھاری اضافہ ہے ۔ اس کے علاوہ باربرداری کی شرح میں6.5 فیصدکااضافہ کردیاگیا۔اسکے نتیجہ میںملک میںافراط زر کی شرح میںبھاری اضافہ ہوگا ۔ جہاں کرایوںمیںاضافہ سے راست طورپرعوام پر بوجھ عائدہوگا وہیں باربرداری کی شرح میںاضافہ کے نتیجہ میںبالواسطہ طورپرعوام کو مہینگائی کی مارسہنی پڑیگی ۔ حکومت کے یہ فیصلے یقینی طور پر قابل مذمت اور قابل تنقیدہیںلیکن وزیراعظم کو یہ تنقید بھی گوارا نہیںہے۔ وہ چاہتے ہیںکہ حکومت کے فیصلوںپرملک بھرکے عوام اور اپوزیشن جماعتیںخاموش بیٹھی رہیںاورحکومت اپنی من مانی کرتی رہے ۔ اس کے علاوہ حکومت سبسڈی کوختم کرنے کے نام پراب پکوان گیس کے سلینڈرس اور کیروسین کی قیمتوںمیںبھی ہرماہ مرحلہ واراندازمیںاضافہ کرتے ہوئے عوام پرمسلسل بوجھ عائد کرنے کا منصوبہ بھی رکھتی ہے ۔
جس سیاسی جماعت نے عوام کو مہینگائی سے فوری راحت دلانے کا وعدہ کرتے ہوئے اقتدار حاصل کیا ہے اسکے اقتدار سنبھالتے ہی قیمتوں میںلگاتار اضافہ کیا جائے توکیا اپوزیشن جماعتوںکواس پرتنقیدیں کرنے اور عوام کو اسکے خلاف احتجاج کرنے کا بھی حق نہیںدیا جاسکتا ؟ ۔ مودی کویہ شکایت ہے کہ حکومت کوایک سو دن بھی آرام سے بیٹھنے کا موقع نہیںملا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ملک کے عوام کو ایک مہینہ بھی راحت نہیںملی اور انہیں مسلسل مہینگائی کی مار سہنے کیلئے مجبور کیا جا رہا ہے ۔ نریندر مودی نے انتخابی مہم کے دوران جوبلند بانگ دعوے کئے تھے اس کے بعد اب اس طرح کی شکایت بے معنی بلکہ مضحکہ خیز کہی جاسکتی ہے ۔نریندرمودی کویہ اعتراف کرنا چاہئے کہ ان کی حکومت نے ملک کے عوام کومہینگائی کے سابقہ جھٹکوںسے سنبھلنے کا موقع دئے بغیر مزید بوجھ عائد کردیا ہے اور ایسے میں جہاںاپوزیشن جماعتوںکو تنقید کا حق حاصل ہے وہیںملک کے عوام بھی حکومت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کا مکمل حق رکھتے ہیں۔