مودی حکومت اور اسرائیل

جائیں تو کہاں جائیں اِسی سوچ میں گم ہیں
خواہش ہے کہیں کی تو ہے ارمان کہیں کا
مودی حکومت اور اسرائیل
وزیراعظم نریندر مودی نے اسرائیل کے ساتھ ہندوستان کے تعلقات کو مزید وسعت دینے اور مستحکم بنانے کی خواہش کے ساتھ وزیرداخلہ راجناتھ سنگھ کو مذاکرات و معاہدات کے لئے اسرائیل روانہ کیا ہے۔ ہند ۔ اسرائیل کے درمیان نئے شعبوں میں تعاون کے لئے وزیراعظم کی کوشش روایتی ہے لیکن انھیں اس عالمی حقیقت کو مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ اسرائیل اس وقت ساری دنیا میں ایک نہایت ہی ہٹ دھرم ملک کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔ اس کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جنگی جرائم کے متعدد واقعات کے لئے بھی یہ ملک بدنام ہے۔ اس کی دفاعی صلاحیتیں انسانیت کے لئے نقصان دہ سمجھی جارہی ہیں۔ بین الاقوامی عدالتوں و قوانین کی نظر میں اسرائیل عالمی امن کے لئے خطرہ ہے۔ مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے لئے کوشش کرنے والے تمام ممالک کو وہ خاطر میں نہیں لاتا۔ ہندوستان عالمی سطح پر ایک امن پسند ملک اور متوازن پالیسی رکھنے کے لئے شہرت رکھتا ہے۔ اس لحاظ سے ہندوستانی حکومت کو بھی عالمی اُصولوں کے مطابق اپنے منصوبوں کو قطعیت دینی چاہئے۔ مرکز میں جب سے نریندر مودی حکومت آئی ہے اس تعلق سے عالمی سطح پر یہ تاثر پیدا ہورہا ہے کہ گجرات فسادات و مسلم کش واقعات کے لئے ذمہ دار لیڈر نریندر مودی کے ہندوستانی وزیراعظم بن جانے کے بعد انسانی حقوق کے سنگین مسائل پیدا ہوں گے۔ اب ہندوستان کو اسرائیل کے ساتھ روابط بڑھانے میں جس قدر عجلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے دیکھا جارہا ہے یہ عالمی سطح پر قابل توجہ ہوگا۔ فلسطینی کاز کے لئے ہندوستان کی پالیسی سب پر عیاں ہے۔ ایک سیکولر ملک کی حیثیت سے ہندوستان نے فلسطینی کاز کی ہر محاذ پر حمایت کی ہے ماضی میں ہندوستانی حکومتوں نے اسرائیل کے ساتھ روابط کو چند شعبوں تک ہی محدود رکھا تھا۔ بدقسمتی سے نرسمہا راؤ حکومت نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو وسعت دے کر اپنی پارٹی اور ملک کے لئے ایک معترض قدم اُٹھایا تھا۔ اب نریندر مودی حکومت کے نمائندہ کی حیثیت سے وزیرداخلہ راجناتھ سنگھ نے اسرائیل کو کافی اہمیت دی ہے۔ یہ بڑی بدبختی کی بات ہے کہ ایک نیچے سطح کے ملک کے ساتھ تعلقات کو مستحکم و مضبوط بنانے پر توجہ دی جارہی ہے۔ جس ملک کے خلاف یوروپی یونین کے ملکوں میں تحفظ ذہنی پایا جاتا ہے اس کے ساتھ ہندوستان کی دوستی کو عالمی تناظر میں مختلف زاویہ سے دیکھا جائے گا۔ حال ہی میں سویڈن نے مملکت فلسطین کو تسلیم کرکے اسرائیل کی غاصبانہ پالیسیوں کی مذمت کی تھی۔ برطانیہ کی پارلیمنٹ نے بھی اسرائیل کے خلاف اپنے عوام کے احساسات کو مدنظر رکھ کر قرارداد منظور کی تھی۔ کئی مغربی ممالک میں اسرائیل کی جارحیت پسندانہ پالیسیاں موضوع بحث ہیں۔ عالمی امن کے لئے خطرہ بننے والے ملک اسرائیل کو زیادہ اہمیت دینے کا مطلب اس کی پالیسیوں کی حمایت کرنا ہے۔ تمام امن پسند اقوام اور عوام نے اسرائیل کی قتل و غارت گری کو ناپسند کیا ہے۔ ایسے ملک کے ساتھ ہندوستان کی دوستی اور مختلف شعبوں میں تعلقات کو وسعت دینے کی کوشش افسوسناک سمجھی جائے گی۔ اسرائیل نے اپنی دفاعی صلاحیتوں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے لئے استعمال کیا ہے۔ جہاں تک دیگر شعبوں جیسے سکیورٹی، زراعت، متبادل برقی کی تیاری، ذخیرہ آب کی صلاحیتوں و برقی بچت کے تجربوں کا تعلق ہے یہ عام مفادات کے شعبے ہیں۔ ان پر ہندوستان بھی اپنے بل بوتے پر جدوجہد کے ساتھ ترقی حاصل کرسکتا ہے۔ ایک یہودی ملک اور جنگی جرائم کے لئے بدنام حکومت کے ساتھ ہندوستان کی دوستی فلسطین کاز اور امن کے معاملوں پر سمجھوتہ کرتے ہوئے فروغ دی جائے تو اس پر مختلف گوشوں سے تنقیدیں ہوں گی۔ مودی حکومت کو یہ خیال رکھنا ضروری ہے کہ اسرائیل نے فلسطینیوں کی اراضیات کو ہڑپ کر اپنے توسیع پسندانہ عزائم کو بروئے کار لایا ہے۔ اب اس جگہ پہونچ کر وزیرداخلہ راجناتھ سنگھ اسرائیل کے ساتھ وسیع تر شعبوں میں تعاون کے معاہدے کررہے ہیں۔ وزیراعظم نریندر مودی کے ’’میک اِن انڈیا‘‘ منصوبہ کے لئے اسرائیل کے ساتھ دوستانہ پالیسیاں وضع کرنا وقت کا تقاضہ سمجھا جارہا ہے تو ساری دنیا کے اندر امن کو فروغ دینا بھی وقت کی شدید ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔ مودی حکومت کو اپنے ان تعلقات کی بنیاد پر اسرائیل کو امن کا درس دینے کی کوشش کرنی چاہئے تاکہ فلسطینی کاز، انسانی حقوق اور عالمی امن کے معاملہ میں ہندوستان کی دیرینہ پالیسیوں پر کوئی آنچ نہ آنے پائے۔ ویسے راجناتھ سنگھ نے اسلامی ملکوں کے ساتھ اسرائیل کے کشیدہ تعلقات کو نوٹ کیا ہے اور اُنھوں نے مشرق وسطیٰ کے مسائل کا سیاسی حل تلاش کرنے کے لئے اسرائیل پر زور بھی دیا ہے۔ مودی حکومت بھی اس حقیقت سے واقف ہے کہ کسی بھی تنازعہ کا خاص فوجی حل برآمد نہیں کیا جاسکتا تو فلسطینی کاز کے لئے حکومت ہند کی پالیسیوں کو پوری طرح واضح کرنا ضروری ہے۔
بی جے پی میں اقتدار کی رسہ کشی
مرکزی کابینہ میں توسیع کے لئے وزیراعظم نریندر مودی کے منصوبوں کو قطعیت دینے سے قبل ہی بی جے پی میں علم بغاوت بلند ہوا ہے۔ گوا کے چیف منسٹر منوہر پاریکر کو مرکزی کابینہ میں شامل کرنے کا فیصلہ مودی حکومت کے لئے حکمرانی کے درد سر کی پہلی شروعات ہے۔ ڈپٹی چیف منسٹر کی حیثیت سے خدمت انجام دینے والے فرانسیس ڈیسوزا نے ان کو نظرانداز کرکے وزیر صحت اور اسپیکر اسمبلی راجندر اولیکر کو چیف منسٹر کا عہدہ دینے کی قیاس آرائیوں پر ناراضگی ظاہر کرکے ڈپٹی چیف منسٹر کی حیثیت سے استعفیٰ دینے کا اعلان کیا ہے۔ بی جے پی کو داخلی ڈسپلن پر فخر ہے مگر اندر ہی اندر اقتدار کی رسہ کشی سے ظاہر ہوتا ہے کہ نظریاتی قیادت کی حامل پارٹی کو اقتدار کی خواہش رکھنے والے قائدین سے تماشہ گاہ بننے کی نوبت سے دوچار ہونا پڑرہا ہے۔ بی جے پی کو داخلی طور پر انتشار کا سامنا اس لئے ہے کیوں کہ اس نے لیڈروں کے انتخاب میں اپنے نظریات سے زیادہ موقع پرستانہ سیاست کے حامل قائدین کو پارٹی صفوں میں شامل کیا۔ ڈپٹی چیف منسٹر فرانسس ڈیسوزا 2002 ء سے بی جے پی میں ہیں۔ عیسائی طبقہ سے تعلق رکھنے والے ڈیسوزا بی جے پی کے واحد اقلیتی رکن اسمبلی ہیں اُنھوں نے اقلیتوں کے مسائل کی پرواہ کئے بغیر بی جے پی کا ساتھ دیا تھا۔ ان کی 12 سالہ وفاداری کے عوض ہی انھیں 2012 ء میں ڈپٹی چیف منسٹر بنایا گیا تھا۔ گوا میں اقلیتی ارکان کو خوش کرنے کے لئے انھیں ڈپٹی چیف منسٹر کا عہدہ دیا گیا تھا۔ ورنہ کسی بھی حکومت میں ڈپٹی چیف منسٹر کا وقار اور مرتبہ و مطلب بے معنی ہوتا ہے۔ یہ عہدہ صرف خوش رکھنے کی ایک پالیسی کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ بی جے پی نے بھی منہ دیکھی وفاداری یا مرکزی قیادت سے قربت رکھنے والے قائدین کو قلمدان دینے پر عمل پیرا ہے تو ناراضگیاں پیدا ہونا یقینی ہے۔ مودی نے مرکز میں کابینہ کی توسیع کا فیصلہ کرکے گوا میں اتھل پتھل کردی ہے۔ مہاراشٹرا میں بھی ایسی ہی کچھ سیاسی کیفیت پیدا ہوسکتی ہے۔ مودی حکومت کا یہ پہلا حکمت عملی کے برعکس کیا گیا غلط فیصلہ ہے جس کے آنے والے دنوں میں منفی نتائج برآمد ہوں گے۔ کیوں کہ مرکز میں ناخواندہ وزراء جیسے سمرتی ایرانی کو اہم قلمدان مل سکتا ہے تو عوامی بھلائی کے بجائے سیاسی اقتدار پرستوں میں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔