حیدرآباد ۔ 19 اپریل ۔ بی جے پی لاکھ کوشش کرلے، نریندر مودی گجرات تا دہلی سر کے بل سفر پر نکل پڑے یا شدید گرمی کی تمازت میں احمدآباد سے آر ایس ایس کے ہیڈکوارٹر ناگپور تک پیدل چلتے ہوئے پہنچے اس کے باوجود مرکز میں بی جے پی حکومت بنا سکتی ہے اور نہ ہی مودی عہدہ وزارت عظمیٰ پر فائز ہوسکتے ہیں۔ وزیراعظم کی باوقار کرسی پر براجمان ہونے کیلئے ایل کے اڈوانی نے کافی کوششیں کیں۔ دو ارکان پارلیمنٹ سے پارٹی کے ارکان پارلیمنٹ کی تعداد 112 تک پہنچا دیا۔ مختلف موقعوں پر فرقہ پرستی کے درختوں سے کاٹی گئی لکڑی سے بنے رتھوں کی یاترائیں نکالی، شہادت بابری مسجد میں مجرمانہ بلکہ شیطانی رول ادا کیا، ان کی رتھ یاتراؤں کے نتیجہ میں ہزاروں انسانی جانیں ضائع ہوئیں اس کے باوجود وزیراعظم بننے بی جے پی کے اس ضعیف لیڈر کی خواہش پوری نہ ہوسکی اب تو حال یہ ہیکہ اڈوانی کو خود ان کے شاگرد نے ایک طرح سے پارٹی ہیڈکوارٹر کا چوکیدار بنادیا ہے۔ ان حالات میں کوئی یہ کہتا ہیکہ بی جے پی کو اقتدار حاصل ہوگا اور مودی ملک کے وزیراعظم بن جائیں گے تو بالکل غلط ہے۔ قارئین یہ کوئی تقریر نہیں بلکہ ہمارے شہر کے ایک مشہور وکیل کے الفاظ ہیں۔ آج کل پرانا شہر میں مجلسی قائدین عوام سے کہہ رہے ہیں کہ اتحاد وقت کا تقاضہ ہے ورنہ بی جے پی اور نریندر مودی کو غلبہ حاصل ہوگا۔ اس سلسلہ میں راقم الحروف نے عوام کی رائے جاننے کی کوشش کی۔ موقوفہ جائیدادوں اور انسانی حقوق پر گہرائی سے نظر رکھنے والے اس ایڈوکیٹ صاحب نے بتایا کہ دراصل مسلمانوں کو بی جے پی اور مودی سے خوف دلایا جارہا ہے جبکہ حقیقت میں دیکھا جائے تو مودی عہدہ وزارت عظمیٰ پر فائز نہیں ہوسکتا۔ 15 ویں لوک سبھا میں بی جے پی کے 112 ارکان کامیاب ہوئے تھے اب ان کے زیادہ سے زیادہ 150 امیدوار ہی کامیاب ہوسکتے ہیں۔ ان صاحب نے ہم سے الٹا سوال کردیا کہ ان حالات میں آپ ہی بتائیے کہ بی جے پی کس طرح 272 کا جادوئی عدد حاصل کرپائے گی۔ شہر کے ایک سماجی جہدکار سے ہم نے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ مسلمان اب بی جے پی یا مودی سے ڈرنے والا نہیں بلکہ مودی خود گجرات فسادات میں اپنے رول کے باعث ڈروخوف میں مبتلاء ہے۔
اسے اچھی طرح اندازہ ہیکہ قدرت کی لاٹھی میں آواز نہیں ہوتی۔ ایک نہ ایک دن اسے اپنے کئے کی سزاء ضرور ملے گی۔ جہاں تک ایم آئی ایم قائدین کا سوال ہے وہ مسلمانوں کو بی جے پی اور مودی کا خوف دلا کر اپنے مفادات کی تکمیل چاہتے ہیں۔ اب مسلمان باشعور ہوچکے ہیں۔ اسی دوران سائبرآباد کی ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں کام کرنے والے کمپیوٹر انجینئر بھی اس گفتگو میں شامل ہوگئے۔ انہوں نے فوری اپنا لیاپ ٹاپ کھولا اور ہندوستان کی تمام 28 ریاستوں اور مرکزی زیرانتظام علاقوں میں لوک سبھا نشستوں کی تعداد 2009ء کے عام انتخابات میں کامیاب ہونے والے امیدواروں کے نام اور انہیں حاصل ووٹوں کی تفصیلات بڑی تیزی کے ساتھ بتادی اور کہا کہ آندھراپردیش (آندھرا ۔ تلنگانہ) میں 42 پارلیمانی نشستیں ہیں۔ بی جے پی کو یہاں سے صرف ایک یا دو نشستیں حاصل ہوسکتی ہیں۔ کیرالا میں جہاں 20 نشستیں ہیں اسے ایک بھی نشست حاصل نہیں ہوسکتی۔ ماضی میں کرناٹک میں اقتدار حاصل کرتے ہوئے بی جے پی نے جنوبی ریاستوں میں سے کسی ریاست میں پہلی مرتبہ اقتدار حاصل کیا تھا۔ اس ریاست میں 28 پارلیمانی نشستیں ہیں لیکن بی جے پی 8-10 حلقوں میں کامیابی حاصل کرسکتی ہے۔ ٹاملناڈو میں جہاں 39 نشستیں ہیں بی جے پی ایک نشست حاصل کرنے کے بھی قابل نہیں ہے۔ مہاراشٹرا میں جملہ 48 نشستیں ہیں جس میں بی جے پی ۔ شیوسینا اتحاد کو زیادہ سے زیادہ 20 حلقوں میں کامیابی حاصل ہوسکتی ہے۔ اوڈیشہ میں بیجوجنتادل کی حکومت ہے وہاں 21 پارلیمانی حلقے ہیں۔ وہاں بھی بی جے پی کی حالت بری ہونے والی ہے۔ مغربی بنگال میں ممتابنرجی بی جے پی کیلئے سب سے بڑی مصیبت بنی ہوئی ہیں۔ ان کی ریاست کی 42 پارلیمانی نشستوں میں سے بی جے پی کو صرف انڈہ یعنی صفر ملے گا۔ چھتیس گڑھ کی 11 میں سے 6 نشستوں پر اسے کامیابی مل سکتی ہے جبکہ مدھیہ پردیش کی جملہ 29 میں سے 18 نشستیں حاصل کر پائے گی جبکہ 6 شمال مشرقی ریاستوں میں اسے کسی بھی نشست پر کامیابی نہیں مل سکتی۔
ہم نے اس آئی ٹی انجینئر کی ان تفصیلات پر غور کرتے ہوئے جھارکھنڈ، بہار، اترپردیش، راجستھان، گجرات، دہلی، پنجاب، کشمیر، گوا جیسی ریاستوں میں بی جے پی کا موقف جاننے کی کوشش کی جس پر پتہ چلا کہ جھارکھنڈ کی 14 میں سے اسے 4-5، بہار کی 42 نشستوں میں سے بی جے پی ۔ ایل جے پی اتحاد کو 18-20، اترپردیش کی جملہ 80 نشستوں میں سے 25-30، راجستھان کی 24 نشستوں میں سے 16، گجرات کے 2 حلقوں میں سے 20، دہلی کے 7 حلقوں میں سے 3، پنجاب کی 13 میں سے ایک یا دو، جموں و کشمیر میں ایک، اترکھنڈ کی 5 میس سے 5، گوا کی دو میں سے دو نشستوں پر کامیابی حاصل ہوگی۔ اسی طرح ہریانہ، ہماچل پردیش، لکشادیپ، پڈوچیری، سکم، تریپورہ وغیرہ میں بھی بی جے پی کوئی خاص مظاہرہ کرنے والی نہیں۔ اس سلسلہ میں ہم نے عثمانیہ یونیورسٹی کے ایک پروفیسر سے بات کی انہوں نے بتایا کہ بی جے پی 160 تا 165 حلقوں میں کامیاب ہوسکتی ہے لیکن اس کی حلیف جماعتیں 25 تا30 حلقوں میں اپنی کامیابی درج کرواسکتی ہیں۔ ان حالات میں اگر کوئی مسلمانوں کو یہ کہتے ہوئے ڈراتا ہیکہ بی جے پی کو اقتدار حاصل ہوگا نریندرمودی عہدہ وزارت عظمیٰ پر فائز ہوگا بالکل غلط بات ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ تعصب پسند میڈیا کی لاکھ کوششوں کے باوجود مودی کو عوام کی ہمدردی حاصل نہیں ہے۔ حسینی علم کے ایک تاجر سے جب اسے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے بے ساختہ کہا ’’بی جے پی وجے پی کوئی نہیں آئے گی۔ مودی ودی وزیراعظم نہیں بنے گا۔ یہ سب مسلمانوں کو ڈرانے کی باتیں ہیں۔ اب مسلمان ووٹر ڈرنے والے نہیں بلکہ فیصلے کرنے والے ہیں اور ایک فیصلہ جو حالات کا رخ بدل دیں گے۔ عوام کو مزید بیوقوف نہیں بنایا جاسکتا۔