نئی دہلی 5 جون(سیاست ڈاٹ کام) ممتاز ماہر قانون اور قومی اقلیتی کمیشن کے سابق صدرپروفیسر طاہر محمود نے کہا ہے کہ ملک کے موجودہ حالات پر بعض عیسائی پیشواؤں کی طرف سے تشویش کااظہار کسی بھی طرح آئین اور قانون کے خلاف نہیں ۔گووا کے آرک بشپ کی طرف سے اپنے پیروؤں کو حال ہی میں بھیجے گئے جس خط پر آج کل میڈیا میں بحث ہورہی ہے ، پروفیسر محمود اسی کے حوالے سے یو این آئی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عیسائی اس ملک کے برابر کے شہری ہیں اور انھیں بھی آئین کے تحت مسلمّہ اظہار خیال کی آزادی کا استعمال کرتے ہوئے ملک کے حالات پر تبصرہ کرنے کا اتنا ہی حق ہے جتنا دوسروں کا ہے ۔انہوں نے کہا کہ اسے کسی بھی نظرئیے سے ملک کی سالمیّت کے خلاف نہیں مانا جا سکتا اور اگر یہ محسوس کیا جارہا ہے کہ ملک میں ایسا کچھ ہورہا ہے جس سے آئین کے بنیادی تصوّرات کی نفی ہوتی ہے تو لوگوں کو اس کی طرف متوجّہ کرنا ملک کے ہر شہری کا بنیادی حق ہی نہیں بنیادی فرض بھی ہے ۔پروفیسرطاہر محمود نے واضح کیا کہ آئین کے تحت شہریوں کے بنیادی فرائض سے متعلق باب4-A کے مطابق ”آئین کی پیروی کرنا اور اسکے اصولوں اوراداروں کا احترام کرنا” تمام شہریوں کا پہلا بنیادی فریضہ ہے جن میں حاکم اور محکوم سب شامل ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس لحااظ سے اگر ملک کا کوئی بھی ذمہ دار اور حسّاس شہری خواہ اسکا تعلّق کسی بھی مذہبی فرقے سے ہوصدقدلی سے محسوس کرتا ہے کہ کچھ دوسرے شہری اس فریضے کی خلاف ورزی کرکے ملک کے حالات خراب کر رہے ہیں تواسے یہ بات کہنے اور اس پر دوسروں کی توجّہ مبذول کرنے کا پورا حق حاصل ہے جس پر کسی قسم کا آئینی یا قانونی اعتراض نہیں کیا جا سکتا ہے ۔