موت پر سیاست مدفن پر عدالت ۔۔ شکیل شمسی 

تمل ناڈو کے بلند قامت سیاسی لیڈر ایم کروناندھی کی موت پر اتنی شرمناک سیاست ہوگی اور بات عدالت عالیہ تک پہنچ جائے گی یہ کسی نے سوچا نہیں تھا ۔تمل ناڈو کی حکومت نے کروناندھی کی تدفین کیلئے ساحل سمندر پر جگہ دینے سے انکار کر کے یہ بتایا کہ اس ملک میں سیاسی دشمنی مرنے کے بعد بھی ختم نہیں ہوتی ، لیکن کروناندھی کے ساتھ مرنے کے بعد بھی ایسا سلوک ہونے کے پیچھے سیاسی دشمنی کے علاوہ نسلی اورمذہبی تعصب بھی کام کررہا تھا ۔ واضح رہے کہ آنجہانی کروناندھی کو ان کے مخالفین ہندوؤں کا دشمن قرار دیتے تھے جب کہ ایسا نہیں تھا وہ ہندوؤں کے خلاف نہیں تھے ۔البتہ تملوں پرہندی تھوپے جانے کے سخت مخالف تھے ۔

اس دشمنی کی ابتداء 1937ء میں اس وقت ہوئی جب ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں مدراس پریزیڈنسی کا الیکشن کانگریس نے جیتا اور راجہ جی وہاں کے وزیر اعلی بنے جو ہندی کے بہت بڑے حامی تھے ۔ انہوں نے اس وقت یہ اعلان کیا تھا کہ آئندہ پندرہ برس تک تو انگریزی ہی سرکاری زبان رہے گی لیکن اس کے بعد ہندی سرکاری زبان ہوجائے گی ۔کانگریس سرکار کے اس فیصلہ کی مدراس کے لوگوں نے سخت مخالفت کی اورپیریا جیسے لیڈر سامنے آگئے ۔اس کے خلاف 1938ء میں جسٹس پارٹی کی طرف سے زبر دست عوامی تحریک شروع کی اس وقت کروناندھی کی عمر اس وقت صرف چودہ سال کی تھی انہو ں نے بھی اس تحریک میں حصہ لیا ۔انہوں نے طلباء کی ایک تنظیم بنائی او رایک اخبار بھی نکالا ۔۲۰؍ سال کی عمر میں انہوں نے اپنے قلم کا رخ فلمی دنیا کی طرف کیا ا ور بہت سارے سوپر ہٹ فلموں کی کہانیاں اور مکالمہ لکھے ۔1957ء کے الیکشن میں انہوں نے پہلی بار حصہ لیا او راسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ۔اور سیاست میں بہتر مقام بنانے میں کامیاب ہوگئے ۔

وہ چھ مرتبہ تمل ناڈو کے وزیر اعلی رہے ۔افسوس کہ مرنے کے بعد حکمرانوں نے ان کے ساتھ وہ سلوک کیا کہ مدراس ہائی کورٹ کو ایک خصوصی عرضی پر سماعت کر کے یہ فیصلہ دینا پڑا کہ ان کو مرینا کے ساحل پرہی دفن کیا جائے ۔خیال رہے کہ جنوبی ہند کے اہل ہنود کے کئی فرقہ اپنے مردوں کو جلانے کے بجائے دفن کرتے ہیں ۔اس بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ ہندوستان میں ہزاروں سال سے رہتے آئے ’’دراؤڑ ‘‘ باشندے اپنے مردوں کو دفن ہی کرتے تھے ۔لیکن جب آریائی نسل کے لوگ یہاں آکر بسے تو انہوں نے ویدوں کی تعلیمات کے مطابق اپنے مردوں کو جلانا شروع کیا ۔اس کے علاوہ سادھوؤں اوراہم مذہبی شخصیات کوبھی جلانے کے بجائے سمادھی دئے جانے کی رسم یہاں ہوتی چلی آئی ہے ۔

جنوبی ہند کے فرقے لنگائیت کے لوگ اپنے مردوں کو دفن کرتے ہیں اس لئے کروناندھی کو دفن کئے جانے پر حیران ہونے کی ضرورت نہیں ۔جہاں ان کو دفن کیا گیا وہاں پہلے سے انا دورائی او رتھوڑی دور پر ایم جی رام چندرن او رجئے للیتا بھی مدفون ہیں ۔ہاں اس بات پر حیران ہونا حق بجانب ہے کہ مرکز میں بی جے پی کا ساتھ دینے والی اے آئی اے ڈی ایم کے نے کروناندھی کو ایسی جگہ دفن ہونے سے کیوں روکا جہاں پہلے ہی سے تین اہم لیڈر ان مدفون ہیں ۔