منکر نبوت اور خارج اسلام کون ؟ … ایک تحقیقی جائزہ

فقیہ الاسلام حضرت مفتی ابراہیم خلیل الہاشمی علیہ الرحمہ

اﷲ سبحانہ و تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت و رہبری کے لئے ہر زمانے اور ہر قوم میں انبیاء کرام و مرسلین عظام علیہم الصلوۃ والسلام کو مبعوث فرمایا، جنہوں نے اقوام و ملل کو کفر و شرک اور ظلم و طغیان کی ظلمتوں سے نکال کر توحید ربانی و دین حقانی کی روشنی دکھائی اور ہادی الی سبیل الحق کے فریضہ منصبی کی گراں بار ذمہ داری سے عہدہ برآ ہوئے۔ اس منصب جلیلہ پر سب سے آخر میں فائز ہونے والی ہستی مبارک حضرت نبی کریم محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس ہے، جو باعتبار تحقیق نبوت بفجوائے حدیث پاک ’’کنت نبیا وآدم بین الماء والطین‘‘ اولین کی حامل ہے۔ قرآن پاک کی آیت ’’الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا‘‘ (المائدہ۔۳) کے ذریعہ آپ کی ذات گرامی پر تمام تر نعمتوں کے اتمام و دین حنیف کے اکمال کا باعتبار ایمان و اسلام، احسان وغیرہم کا اعلان کیا گیا اور اس طرح اشارۃ النص سے ’’کمال مطلق‘‘ دین مصطفوی صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہونے کا اشارہ دیا گیا۔ اور یہ بتا دیا گیا کہ آپ ہی کا دین کامل و اکمل ہونے کی وجہ اولین و آخرین کے لئے حجت ہے اور یہی دین قیامت تک کے لئے کافی اور باقی رہنے والا ہے۔ علاوہ ازیں قرآن پاک کی صراحت النص ’’ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اللہ وخاتم النبیین وکان اللہ بکل شی ء علیما‘‘ (الاحزاب۔۴۰) سے صاف اور واضح طورپر یہ ظاہر کردیا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حق سبحانہ و تعالی کے رسول اور خاتم النبیین ہیں، جو تشریعی و غیر تشریعی ہر طرح کی نبوت کے سلسلہ کو ختم کرنے والے ہیں، جیسا کہ اس آیت پاک کے ضمن میں علامہ امام ابن کثیر نے لکھا ہے ’’فھذہ الآیۃ فی انہ لانبی بعدہ واذا کان لانبی بعدہ فلا رسول بالطریق الاولی لان مقام الرسالۃ اخص من مقام النبوۃ‘‘۔

اصول اور معانی کا مشہور اور علمی قاعدہ ہے کہ جب نکرہ نفی کے تحت آتا ہے تو وہ استغراق اور عموم کا فائدہ دیتا ہے۔ اس حدیث میں بھی لفظ ’’نبی‘‘ نکرہ ہے اور لا نفی کے تحت واقع ہے، اس لئے حسب قاعدہ نبی سے باستغراق ہر نبی مراد ہے۔ صاحب شریعت جدیدہ ہو یا نئی شریعت کا متبع۔
آیت پاک میں ’’خاتم‘‘ بالکسر و بالفتح ہر دو قراء ت سے مروی ہے، جس کے معنی آخری کے بھی آتے ہیں۔ کلام عرب میں مہر کے لئے بھی اس کا استعمال معروف ہے، تاہم اس کا حاصل بھی وہی معنی ہیں جیسا کہ تفسیر روح المعانی میں ہے ’’والخاتم اسم آلۃ لما یختم بہ کالطابع لما یطبع بہ فمعنی خاتم النبیین الذی ختم النبیون بہ ومآلہ آخر النبیین‘‘۔ عقیدۂ ختم نبوت کا تعلق چوں کہ بنیادی عقائد اسلامیہ سے ہے، اس لئے حضرت رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی ایک مواقع پر بار بار اس سے متعلق واضح ارشادات عطا فرمائے ہیں، جو کتب احادیث سے اکتساب فیض کرنے والوں کی مشام جاں کو صبح قیامت تک معطر فرماتے رہیں گے۔ چنانچہ حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت تمام کتب احادیث جیسے بخاری و مسلم، ترمذی و نسائی وغیرہ میں موجود ہے، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس سے قصر نبوت کی تکمیل کو ایک بلیغ تمثیل سے واضح کیا گیا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے ’’ان مثلی ومثل الانبیاء من قبلی کمثل رجل بنی بیتا فاحسنہ واجملہ الا موضع لبنۃ من زاویۃ فجعل الناس یطوفون بہ ویعجبون لہ ویقولون ھلا وضعت ھذہ اللبنۃ وانا خاتم النبیین‘‘۔ (بخاری کتاب المناقب)

ترمذی شریف میں حضرت سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ’’ان الرسالۃ والنبوۃ قد انقطعت فلا رسول بعدی ولانبی‘‘ اور ایک حدیث پاک میں حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی فضیلت بیان کرتے ہوئے مسئلہ ختم نبوت کو یوں بیان فرمایا ہے کہ میرے بعد نبی ہونا ممکن ہوتا تو عمر بن الخطاب نبی ہوتے۔ ’’لوکان بعدی نبی لکان عمر بن الخطاب‘‘۔ (ترمذی، کتاب المناقب)
عقیدۂ ختم نبوت ہی کی طرح حضرت سیدنا عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کے نزول اجلال کا عقیدہ بھی عقائد اسلامیہ میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے، جو کتاب و سنت کے منصوصات سے مصرح ہے، جس کا مرزا غلام احمد قادیانی نے انکار کیا اور خود دعویدار مسیح موعود ہو گیا اور استدلال یہ کیا کہ ’’عیسی ابن مریم کی تشریف آوری کا عقیدہ خود عقیدہ ختم نبوت کے منافی ہے‘‘۔

اس کا جواب علمائے اسلام نے یہ دیا ہے کہ حضرت رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں۔ وصف نبوت کا وقوع آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد معدوم ہے۔ مسئلہ نزول عیسی علیہ السلام جو قرآن پاک و احادیث متواترہ اور اجماع امت سے ثابت ہے، مسئلہ ختم نبوت پر اثرانداز نہیں، کیونکہ وہ نبوت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت پہلے ہی سے باعتبار بعثت نبوت سے سرفراز ہیں، جیسا کہ تفسیر ابن کثیر میں ہے ’’والمراد بکونہ علیہ السلام خاتمھم انقطاع حدوث وصف النبوۃ فی احد من الثقلین بعد تخلیتہ علیہ السلام بھا فی ھذہ النشاۃ ولا یقدح فی ذلک ما اجمعت علیہ الامۃ واستشھرت فیہ الاخبار ولعلھا بلغت مبلغ التواتر المعنوی ونطق بہ الکتاب علی قول و وجوب الایمان بہ واکفر منکرہ کالفلاسفۃ من نزول عیسی علیہ السلام آخر الزمان لانہ کان کان نبیا قبل ان یحلی نبیا صلی اللہ علیہ وسلم بالنبوۃ فی ھذہ النشاء ۃ‘‘۔ نیز حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قیامت کے قریب تشریف آوری منصب نبوت و رسالت پر مامور من اللہ ہونے کی حیثیت سے نہیں ہوگی، بلکہ امت محمدیہ کے امام و قائد اور خلیفۂ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت سے ہوگی۔ اسی لئے اس پر کوئی اشکال وارد نہیں ہوتا، جیسا کہ تحفہ شرح منہاج میں ہے ’’وعیسی علیہ السلام نبی قبل فلا یرد الاشکال‘‘۔

حضرت رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کے آخری ایام یعنی خیر القرون ہی میں مسیلمہ کذاب نے حضرت رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے اقرار اور قرآن پاک اور اسلامی احکام وغیرہ پر ایمان رکھتے ہوئے اپنی نبوت کا دعویٰ کیا اور ایک جماعت اس کے پیچھے ہو گئی۔ حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اپنے زمانہ خلافت میں سب سے پہلے باجماع صحابہ (رضون اللہ علیہم اجمعین) اس کو مرتد اور واجب القتل جان کر اس کے خلاف علم جہاد بلند کیا اور اس کو کیفر کردار تک پہنچاکر اس عظیم فتنہ کا قلع قمع فرما دیا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نزدیک حضرت رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے بعد کسی کی طرف سے نبوت کا دعویٰ چاہے وہ کسی انداز اور کسی تاویل کے ساتھ ہو، باجماع صحابہ موجب کفر و ارتداد ہے۔
ایک حدیث پاک میں حضرت رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت میں تیس کذاب دعویداران نبوت کی پیش گوئی فرماکر ارشاد فرمایا کہ ’’میں خاتم النبیین ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے‘‘۔ ’’وانہ سیکون فی امتی کذابون ثلاثون کلھم یزعم انہ نبی وانا خاتم النبیین لانبی بعدی‘‘۔ (ابوداؤد، کتاب الفتن، عن ثوبان رضی اللہ عنہ)
شرح شفا میں ہے کہ ہم ہر اس شخص کو کافر قرار دیں گے،

جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ نبوت میں نبوت کا دعویٰ کرے، جیسے مسیلمہ اور اسود عنسی یا کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد نبوت کا دعویٰ کرے۔ کیونکہ دعوائے نبوت عیسائیوں ہی کی طرح اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب ہے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں۔ ’’وکذلک نکفر من ادعی نبوۃ احد مع نبینا صلی اللہ علیہ وسلم ای فی زمنہ کمسیلمۃ الکذاب والاسود العنسی او ادعی نبوۃ احد بعدہ فانہ خاتم الـنـبـیـیـن بنص القرآن والحدیث فھذا تکذیب اللہ رسولہ صلی اللہ علیہ وسلم کالعیسویۃ‘‘ (شرح شفا، صفحہ ۴۷) اسی بناء پر فقہائے امت اسلامیہ نے بھی مدعیان نبوت کو کافر قرار دیا ہے، جیسا کہ عالمگیری جلد دوم صفحہ ۳۶۲ مے ہے ’’اذلم یعرف الرجل ان محمدا صلی اللہ علیہ وسلم آخر الانبیاء… لیس بمسلم‘‘۔ صفحہ ۴۶۲ پر ہے ’’لو قال انا رسول اللہ او قال بالفارسیۃ‘‘ من پیغمبرم یرید بہمن پیغام می برم یکفر۔ الاشباہ والنظائر صفحہ ۶۹۳ میں بھی اسی طرح ہے۔ علامہ ابن حجر مکی شافعی رحمۃ اللہ علیہ اپنے فتاویٰ میں لکھتے ہیں ’’من اعتقد وحیا بعد محمد صلی اللہ علیہ وسلم کفر باجماع المسلمین‘‘۔ ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ شرح فقہ اکبر صفحہ ۲۰۲ میں لکھتے ہیں ’’ودعویٰ النبوۃ بعد نبینا صلی اللہ علیہ وسلم کفر بالاجماع‘‘۔ کسی کے دعوائے نبوت پر اگر کوئی اس سے معجزہ طلب کرے اور یہ طلب اس کے اظہار عجز و رسوائی کے لئے نہ ہو تو اس کو فقہاء نے کافر قرار دیا ہے، جیسا کہ خلاصۃ الفتویٰ میں ’’ولو ادعی رجل النبوۃ وطلب رجل المعجزۃ قال بعضھم یکفر وقال بعضھم ان کان غرضہ اظہار عجزہ وافتضاحہ لایکفر‘‘۔

علامہ تفتازانی شرح عقائد نسفی میں فرماتے ہیں ’’وقد دل کلامہ وکلام اللہ المنزل علیہ انہ خاتم النبیین وانہ مبعوث الی کافۃ الناس بل الی الجن والانس ثبت انہ آخر الانبیاء‘‘۔ حضرت شیخ امام عبد السلام بن ابراہیم مالکی اتحاف المرید میں لکھتے ہیں ’’ای ختم ربنا بنبوتہ جمیع الانبیاء قال تعالی وخاتم النبیین ویلزم منہ ختم المرسلین ایضا لان ختم الاعم ختم للاخص من غیر عکس فلا تبتدء نبوۃ ولاشریعۃ بعدہ صلی اللہ علیہ وسلم‘‘۔ شیخ عبد الغنی نابلسی رحمۃ اللہ تعالی علیہ شرح کفایۃ العوام میں لکھتے ہیں ’’اولھم آدم ثم الآخر منھم بحیث لیس بعدہ نبی ولارسول اصلا محمد بن عبد اللہ خاتم الانبیاء والمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم وھو النبی الباقی علی رسالتہ وان مات صلی اللہ علیہ وسلم الی آخر الزمان وانقطاع الدنیا‘‘۔ حضرت شیخ عبد الغنی نابلسی نے حدیث پاک کے حوالے سے حضرت رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے اسمائے مبارکہ میں ’’العاقب‘‘ ہونا بیان فرمایا ہے، جس کے معنی آخری نبی کے ہے۔ ’’وفی السنۃ انا العاقب لانبی بعدی واجمعت الامۃ علی ابقاء ھذہ الکلام علی ظاھرہ‘‘۔

کتاب و سنت کے منصوصات کے واضح تشریحات، فقہائے امت کے واضح ہدایات سے یہ ثابت ہے کہ حضرت نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نبی آخر الزماں ہیں۔ آپ کی بعثت مبارکہ کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہو چکا ہے۔ قیامت تک اب کوئی نیا نبی یا کوئی نئی شریعت نہیں آسکتی۔ ان واضح شواہد کے باوجود اگر کوئی نبوت کا دعویٰ کرے تو ایسا شقی و بدبخت کذاب و تہمت باندھنے والا دجال اور خود بھی گمراہ اور دوسروں کو گمراہ کرنے والا اور مرتد، قابل گردن زدنی و خارج عن الاسلام ہے۔ جیسا کہ علامہ ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے ’’فقد اخبر اﷲ تعالٰی فی کتابہ ورسولہ صلی اﷲ علیہ وسلم فی السنۃ المتواترۃ عنہ انہ لانبی بعدہ لیعلموا ان کل من ادعی ھذا المقام بعدہ فھو کذاب افاک ودجال وضال و مضل‘‘۔ علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ اپنی تفسیر روح المعانی میں لکھتے ہیں ’’وکونہ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین مما نطق بہ الکتاب وصرحت بہ السنۃ واجمعت علیہ الامۃ فیکفر مدعی خلافہ ویقتل ان اصر‘‘۔ اسی بناء پر عالم اسلام کے تمام علمائے حقانیین نے مدعیان نبوت کاذبین کی طرح کاذب مدعی نبوت مرزا غلام احمد قادیانی کو مرتد اور خارج عن الاسلام قرار دے دیا ہے۔
نوٹ : حضرت فقیہ الاسلام کی ولادت ۱۰ رمضان المبارک ۱۳۶۰ ھ
وصال ۲۳ ربیع الثانی ۱۴۳۲ھ