کچھ اس طرح سے نظر انداز ہوگئے
جیسے اضافی حرف تھے تری زندگی کی کتاب میں
منموہن سنگھ کا دور حکومت
دنیا کی بڑی جمہوریت ہندوستان کے وزیر اعظم کی حیثیت سے ڈاکٹر منموہن سنگھ کی دوسری معیاد عملا ختم ہوگئی ہے ۔ اب ملک میں نئی حکومت کی تشکیل کا انتظار ہے اور نئی حکومت کی تشکیل کیلئے کل ووٹوں کی گنتی کا کام شروع ہوجائیگا۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ نے وزارت عظمی کی گدی پر اپنی دو معیادیں مکمل کرلی ہیں اور انہوں نے اپنے ذاتی عملہ سے وداعی ملاقاتیں بھی کرلی ہیں۔ انہیں دس سالہ دور حکومت میں کچھ خوشگوار اور کچھ تلخ یادیں بھولنی آسان نہیں ہونگیں ۔ تاہم ہندوستان کے وزیر اعظم کی حیثیت سے ان کا جو دور حکومت ہے وہ بھی آسانی سے فراموش کیا جانے والا نہیں کہا جاسکتا ۔ یہ درست ہے کہ منموہن سنگھ نے اپنے دور حکومت میں کچھ ایسی اسکیمات کا آغاز کیا جن سے غریبوں کو فائدہ ہوا ہے لیکن کئی محاذ ایسے ہیں جن پر منموہن سنگھ حکومت کے دور کو ایک ناکام دور ہی کہا جاسکتا ہے ۔ خاص طور پر اقلیتوں کے معاملہ میں منموہن سنگھ دور حکومت ناکام رہا ہے اور اقلیتوں کی فلاح و بہبود کے معاملہ میں دس برس ضائع ہوگئے ہیں۔ ان دس برس کے عرصہ میں ملک کی اقلیتیں کئی برس پیچھے چلی گئی ہیں۔ ان کی فلاح و بہبود کیلئے منموہن سنگھ کی زیر قیادت این ڈی اے حکومت نے کاغذ پر کئی کام کئے ہیں لیکن عملا یہ کام شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہوگئے ۔ منموہن سنگھ کے دور حکومت میں اقلیتوں کی اور خاص طور پر مسلمانوں کی سماجی و معاشی اور تعلیمی حالت کے بارے میں خود سرکاری کمیٹیوں کی رپورٹس موجود ہیں اس کے باوجود مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے معاملہ پر حکومت کا ریکارڈ بالکل غیر موثر رہا ہے ۔ سچر کمیٹی کی سفارشات ہوں کہ جسٹس رنگناتھ مشرا کمیشن کی رپورٹ ہو کسی پر بھی حکومت نے عمل آوری کیلئے سنجیدگی سے کوششیں نہیں کیں ۔ حکومت وقفہ وقفہ سے ان رپورٹس کے کچھ حصوں پر عمل آوری کا ادعا تو کرتی رہی ہے لیکن عملا ندارد رہا ہے ۔ یہ ایسی صورتحال تھی جس میں اقلیتیں اور خاص طور پر مسلمان یہ محسوس کر رہے تھے کہ حکومت ان کے تعلق سے آنکھیں بند کرچکی ہے ۔ مسلمان ایسا سمجھنے میں بالکل حق بجانب بھی رہے ہیں۔ جو کچھ بھی حالات ان کے ساتھ پیش آئے ہیں ان میں مسلمان اس کے سوا کچھ اور سوچ بھی نہیں سکتے تھے ۔ اس کیلئے انہیں مورد الزام ٹہرایا نہیں جاسکتا ۔
اس ملک میں مسلمانوں نے زندگی کے ہر شعبہ میں قربانیاں دی ہیں اور انہوں نے ملک کی فلاح و بہبود اور ترقی میں اپنا خون جگر فراہم کیا ہے لیکن جب ترقی کے ثمرات کی تقسیم کی بات آئی تو مسلمانوں کو ان کے حصے سے محروم کیا جاتا رہا ہے ۔ یہ ہندوستان کی تاریخ کا اٹوٹ باب ہے ۔ منموہن سنگھ کی زیر قیادت این ڈی اے کی حکومت جب وجود میں آئی تو امید کی جا رہی تھی کہ چونکہ خود وزیر اعظم کا تعلق ایک اقلیتی برادری سے ہے اس لئے وہ اقلیتوں کیلئے کچھ کرینگے ضرور۔ یہ امیدیں تاہم پنپ نہیں پائیں اور ابتداء ہی میں مایوسی کا دور شروع ہوگیا تھا ۔ منموہن سنگھ نے اقلیتوں کیلئے 15 نکاتی پروگرام تیار کیا تھا ۔ اس کی تشہیر بھی ہوئی لیکن اس پر بھی عمل آوری نہیں ہوسکی ۔ اس پروگرام کی راہ میں رکاوٹ خود حکومت کے گوشے بنے ہیں۔ اس وقت کے وزیر فینانس نے اس کو عملا ناقابل عمل قرار دیدیا تھا ۔ سرکاری عہدیداروں نے الگ سے اس میں رکاوٹیں پیدا کیں اور پھر وزیر اعظم نے اپنی دوسری ساکھ بچانے خاموشی اختیار کرلی ۔ جس طرح وہ ہر اہم معاملہ پر خاموش رہنے ہی کو ترجیح دیا کرتے تھے اسی طرح انہوں نے اقلیتوں کیلئے 15 نکاتی پروگرام پر عمل آوری کے معاملہ میں بھی لب کشائی سے گریز ہی کیا تھا ۔ یہ ان کی روایتی خاموشی تھی جس کے نتیجہ میں اقلیتیں کسی بہتری کی امید سے بھی محروم ہوگئیں۔ وزیر اعظم جب اپنی دو معیادوں کی تکمیل کرچکے ہیں اب بھی انہوں نے اس پر کوئی تبصرہ نہ کرنے ہی میں عافیت سمجھی ہے ۔
دوسری پہلووں کی طرح خارجہ پالیسی کے معاملہ میں بھی منموہن سنگھ کے دور حکومت کو بہتر نہیں کہا جاسکتا ۔ ہندوستان کی جو روایتی غیر جانبدار پالیسی رہی ہے وہ عملا ختم ہوچکی ہے اور ہندوستان سرد جنگ کے فریقین میں ایک کا ساتھی اور فریق بن چکا ہے ۔ امریکہ کے عزائم ہندوستان کی خارجہ پالیسی پر واضح نظر آنے لگے ہیں اور یہ ہندوستان کی روایتی پالیسی سے انحراف ہے ۔ امریکہ کے ساتھ سیویلین نیوکلئیر معاہدہ اس معاملہ میں ایک مثال ہے ۔ کئی گوشوں سے شدید مخالفت اور اس وقت حکومت کی حلیف بائیں بازو کی جماعتوں کی جانب سے حکومت کی تائید سے دستبرداری کے باوجود یہ معاہدہ ہوگیا اور اب اس پر عمل آوری شروع ہوگئی ہے ۔ یہ معاہدہ در اصل ناوابستہ تحریک کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا ہے ۔ اب تک ہندوستان ناوابستہ تحریک کا روح رواں رہا تھا۔ اب جبکہ منموہن سنگھ دو معیادیں پوری کرچکے ہیں یہ کہا جاسکتا ہے کہ بحیثیت مجموعی ان کا دس سالہ دور حکومت ناکام اور مایوس کن ہی رہا ہے ۔