منفرد طرز تعمیر کی شاہکار معظم جاہی مارکٹ عمارت پر جنگلی جھاڑیاں

حیدرآباد ۔ 9 ۔ جنوری : معظم جاہی مارکٹ کا شمار ہندوستان کی قدیم ترین مارکٹوں میں ہوتا ہے ۔ 1996 میں انٹاک ہیرٹیج ایوارڈ حاصل کرنے والی اس سنگ بستہ خوبصورت اور فن تعمیر کی شاہکار عمارت فی الوقت خستہ حالی کا شکار ہے ۔ ریاستی محکمہ آثار قدیمہ اس کی مرمت و درستگی پر توجہ نہیں دیتا نتیجتاً میں اس تاریخی عمارت کی چھت پر جنگلی درخت اُگ آئیں ہیں اور اسے بطور گودام کے استعمال کیا جارہا ہے ۔ 1935 میں 10 ہزار مربع گز اراضی پر تعمیر کی گئی اس سنگ بستہ مارکٹ پر انواع و اقسام کے خوشنما پھول و بیلیں دکھائی دینے کی بجائے وہاں اب مٹی کے برتن گھڑے صراحیوں وغیرہ کے ڈھیر پڑے دکھائی دیں گے ۔ جہاں تک معظم جاہی مارکٹ کی تعمیر کا سوال ہے دراصل اس عمارت کی بھی آرائش بلدہ اسکیم کے تحت تعمیر عمل میں لائی گئی ۔ 1935 میں آصف سابع نواب میر عثمان علی خاں بہادر نے اپنے دوسرے فرزند نواب معظم جاہ بہادر کو مجلس آرائش بلدہ کی صدر نشینی پر فائز کیا ۔ اس مجلس آرائش بلدہ کی صدر نشینی پر فائز رہتے ہوئے شہزادہ معظم جاہ بہادر نے غیر معمولی کام کئے اور 1935 تک اس اسکیم پر دو کروڑ روپئے خرچ کئے گئے ۔ جس کے باعث حیدرآباد کو ہمارے ملک کا عروس البلاد کہا جانے لگا تھا ۔ اس اسکیم کے تحت معظم جاہی مارکٹ کی بھی تعمیر ہوئی ۔ 1933 میں اس سنگ بستہ عمارت کی تعمیر شروع ہوئی اور 20 ماہ میں اس کی تکمیل عمل میں آئی ۔ حضور نظام نواب میر عثمان علی خاں کے حکم سے تعمیر کی گئی اس عمارت کو پرنس معظم جاہ بہادر کے نام سے معظم جاہی مارکٹ بھی حضور نظام نے ہی تجویز کیا تھا ۔ 1935 میں معظم جاہی مارکٹ کا نواب میر عثمان علی خاں بہادر نے بہ نفس نفیس افتتاح انجام دیا ۔ 1935 میں اس عمارت کی تعمیر پر ساڑھے چار لاکھ روپئے کے مصارف آئے تھے لیکن افسوس کے آج مکمل طور پر پتھر سے تعمیر کردہ اس مارکٹ کی مرمت و درستگی پر کوئی توجہ نہیں دی جارہی ہے ۔ بارش کے موسم میں چھت سے پانی کا گرنا عام بات ہے جب کہ دکاندار اپنے طور پر دکانات کے اندرونی حصوں کی داغدوزی کرلیتے ہیں ۔

واضح رہے کہ ابتداء میں یہ ایک فروٹ مارکٹ تھی لیکن بعد میں وہاں خشک میوہ مصالحہ جات ، سبزی ، پھول ، عطریات وغیرہ فروخت کئے جانے لگے یہاں تک کہ معظم جاہی مارکٹ میں اسلحہ و گولہ بارود کی دکانات بھی ہوا کرتی تھیں اس طرح معظم جاہی مارکٹ صرف ایک مارکٹ ہی نہیں بلکہ نوابوں کے شہر کی ایک علامت بھی ہے ۔ جہاں آپ کو اب بھی قسم قسم کے عطریات ، حقہ ، خشک میوہ جات اور مصالحہ جات خریدنے کو ملیں گے ۔ بہت کم لوگ اس حقیقت سے بھی واقف نہیں کہ ماضی میں یہاں اعلیٰ کوالیٹی کے پان فروخت کئے جاتے تھے اور شہر کے امراء و رئیس حضرات اور متمول خاندانوں کے ارکان ملک کے مختلف حصوں سے آئے ان پانوں کی خریدی کرتے تھے ۔ اس مارکٹ کے پیشاوری فروٹس بھی کافی مشہور تھے اور اب بھی میوے فروخت ہوتے ہیں جب کہ پھولوں کی دکانیں اب وہاں سے منتقل ہوچکی ہیں ۔ مورخین کا کہنا ہے کہ حضور نظام نواب میر عثمان علی خاں بہادر شہر میں جو بازار تعمیر کرواتے تھے اس کے لیے اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا تھا کہ یہ بازار آبادی سے کچھ دور رہیں تاکہ لوگوں کے امن و سکون میں کوئی خلل پیدا نہ ہوسکے ۔

معظم جاہی مارکٹ کو شہر حیدرآباد کی منفرد و تاریخی عمارت کہا جاتا ہے اور اس کے مینار پر جو گھڑیاں ہیں اس وقت 7 ہزار روپئے ایک گھڑی پر خرچ کئے گئے تھے ۔ شہر کے ایک بزرگ نے معظم جاہی مارکٹ کو حیدرآباد کی شان قرار دیا اور اس کی موجودہ حالت کو ریاستی محکمہ آثار قدیمہ کی بے حسی سے تعبیر کیا ۔ واضح رہے کہ سنگ بستہ اس مارکٹ میں 120 دکانات ہیں ۔ اسے آندھرا پردیش ہائی کورٹ عثمانیہ جنرل ہاسپٹل اور سٹی کالج کی طرز پر ہی تعمیر کیا گیا ۔ کچھ عرصہ قبل معظم جاہی مارکٹ کی تزئین نو اور عظمت رفتہ کی بحالی کے لیے ایک منصوبہ بنایا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا اس عمارت کی ماضی کی رونق واپس لانے کے لیے کئے جانے والے مرمتی کاموں پر کم از کم 3 کروڑ روپئے کے مصارف آئیں گے لیکن اس منصوبہ پر کب عمل ہوگا جی ایچ ایم سی کا ہیرٹیج سیکشن اور ریاستی محکمہ آثار قدیمہ ہی اس کا جواب دے سکتا ہے ۔۔