منشیات فروخت کرنے کے الزام میں2018کے دوران سعودی عربیہ میں48لوگ کو سزائے موت

ریاض۔پچھلے چار ماہ نے سعودی عربیہ نے 48لوگوں کو موت کی سزاء سنائی ہے۔ انسانی حقوق کے نگران کار ادارے کا کہنا ہے کہ نصب کو منشیات کے الزام میں ماردیاگیا ہے اور مذکورہ ادارے نے زوردیا ہے کہ سعودی عرب کو’’اپنے مشہور کردار‘‘ میں سدھار لانے کاکام کیاہے۔

چہارشنبہ کے روز شائع خبر میں امریکی نژاد دائیں بازو گروپ کا کہنا ہے کہ ’’ سال2018کے آغاز سے لے کر اب تک سعودی عربیہ نے 48لوگوں کاقتل کیاہے۔ زیادہ تر لوگو ں کو منشیات کے معاملات میں سعودی عربیہ کے بدنام سزائے موت کے قانو ن کے تحت سزاء دی گئی ہے‘‘

قدآمت پسند مملکت میں سزائے موت کا تناسب دنیامیں سب سے زیادہ ہے جو دہشت گرد ملزمین‘ عصمت ریزی‘ قتل‘ ہتھیار کی لوٹ مار‘ اور منشیات کے ملزمین کو سزائے موت سنائی جاتی ہے

۔حقوق انسانی کے ماہرین باربار مملک میں غیرجانبدارنہ سنوائی کے مسلئے پر بات کرتے آرہے ہیں‘ جوسخت اسلامی قوانین میں پیش آتی ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اس طرح کے قوانین سے جرائم میں کمی ممکن ہے۔ایچ آر ڈبیلو میڈل ایسٹ ڈائرکٹر سارہ لی ویٹسن’’ یہ خراب بات ہے سعودی عربیہ میں زیادہ سزائے موت سنائی جاتی ہیں‘ مگر ان میں سے زیادہ پرتشدد جرائم میں ملوث نہیں ہیں‘‘۔

ایچ آر ڈبلیو کا کہنا ہے کہ سعودی عربیہ نے سال2014سے لے کر اب تک 600قتل کئے ہیں ان میں سے ہر تیسرے آدمی کو منشیات کے کیس میں سزاء سنائی گئی ہے۔پچھلے سال ایک سوپچاس لوگوں کو مملکت میں ماردیاگیاتھا اور تلوار کے ذریعہ ان کاسرقلم کرکے سزاء دی گئی تھی۔

ٹائمز میگزین کو دئے گئے اپنے انٹریو میں ولیعہد محمد بن سلمان نے کہاکہ تھا کہ قتل کے معاملات کو چھوڑ کر دیگر واقعات میں سزائے موت کو تبدیل کرتے ہوئے عمر قید دینے کی ایک تجویز رکھی تھی۔

بااثر شہزادہ سلمان مملکت میں نرم رویہ کی حکومت کی قیادت کررہے ہیں تاکہ تیل پر منحصر معیشت کے متبادل کے طور پر بیرونی سرمایہ کاروں کو سعودی عرب کی طرف راغب کروایاجاسکے۔