منشائے الٰہی کے خلاف عمل کا نتیجہ

مولانا غلام رسول سعیدی

جس طرح مشین کے تمام کل پُرزے مساوی حیثیت کے نہیں ہوتے، کوئی پرزہ معمولی نٹ کی حیثیت رکھتا ہے، کوئی آرمیچر ہے، کوئی ریکٹی فائر ہے، کوئی موٹر ہے اور کوئی معمولی کاربن ہے، لیکن مشین کو کام کرنے کے لئے ان سب پُرزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کی قیمت، اہمیت اور حیثیت میں فرق ہوگا، لیکن مجموعی طورپر مشین کی کار کردگی کے لئے ان سب پرزوں کی اپنے اپنے مقام پر احتیاج ہے اور جب یہ تمام پُرزے اپنے اپنے مقام پر فٹ ہوں گے، تب ہی مشین چل سکے گی اور اگر ان تمام پرزوں کو اپنی اپنی جگہ سے ہٹاکر سب کو ایک لائن میں لگادیا جائے تو مشین کبھی کام نہیں کرسکتی۔ اسی طرح معاشرہ میں مختلف صلاحیتوں اور متفاوت قابلیتوں کے حامل افراد جب اپنے اپنے مقام پر رہ کر کام کریں گے اور ہر شخص کو اس کی قابلیت اور استعداد کے مطابق حیثیت دی جائے گی، تب ہی معاشرہ کی گاڑی صحت اور صلاح کے ساتھ چل سکے گی، ورنہ فساد اور تصادم کی وجہ سے انسان کی تمدنی زندگی مفلوج اور عدل و انصاف کے تقاضے تباہ ہوکر رہ جائیں گے۔ ملک کا امن و سکون غارت ہو جائے گا، اسلامی اقدار سے قوم محروم ہو جائے گی اور ایک اسلامی نظریاتی مملکت کی دیواروں میں خاک و خون سے دراڑیں پڑ جائیں گی اور اس ملک کی چھت جھاگ کی طرح بیٹھتی چلی جائے گی۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت ہنگامی موقعوں پر بھی کسی شخص سے اس کی ذاتی املاک کو اس سے چھین کر اپنے مصرف میں نہیں لیا۔ غزوۂ تبوک جیسے نازک اور سخت مرحلہ میں بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اربابِ ثروت سے امداد و معاونت کی اپیل کی اور باوجود سب سے اعلیٰ اختیار رکھنے کے کسی شخص سے جبراً ایک درہم بھی وصول نہیں کیا۔

جس طرح دوسروں کی جائز املاک کو غصب کرلینا ایک ظالمانہ فعل ہے، اسی طرح دولت کی مساوی تقسیم بھی فطرت اور انصاف دونوں کے خلاف ہے، کیونکہ فطرت اور انصاف دونوں کا منشاء یہی ہے کہ ہر شخص کو اس کی سعی اور صلاحیت کے مطابق معاشرہ میں عزت و مقام اور مال و دولت سے حصہ ملنا چاہئے اور اگر سعی و استعداد کا لحاظ کئے بغیر تمام لوگوں میں دولت کی مساوی تقسیم کردی جائے تو یہ نہ صرف عدل و انصاف اور فطرت کے خلاف ہے، بلکہ صریحاً قرآن کے بھی خلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اگر اللہ تعالیٰ تمام انسانوں پر رزق کی کشادگی کردے تو معاشرہ میں فساد برپا ہو جائے گا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ رزق کی تقسیم اپنی مشیت اور حکمت سے ایک خاص انداز کے مطابق فرماتا ہے اور بلاشبہ وہ اپنے بندوں کی ضرورتوں سے واقف اور ان کی مصلحتوں کو جاننے والا ہے‘‘۔ (سورۂ شوریٰ۔۲۷)
واضح رہے کہ جو نظام، فطرت اور منشائے الہٰی کے خلاف ہوگا، وہ سوائے فساد کے اور کوئی ثمر نہیں لاسکتا۔ انسان عالم صغیر ہے اور یہ خارجی اور ظاہری کائنات عالم کبیر ہے۔ اس عالم صغیر کی نشوونما، ترقی اور بقاء تب ہی ہوسکتی ہے، جب اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے نظام کے مطابق یہ جسم اپنا کام کرتا رہے گا اور اگر اس نظام کے خلاف بدن انسان میں کوئی انقلاب آجائے تو انسان کا مزاج اور قوام فاسد ہو جائے گا اور چشم زدن میں اس کی موت واقع ہو جائے گی۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے بدن انسانی کے لئے نظام بنایا ہے کہ خون رگوں میں گردش کرے، پیشاب مثانہ میں جمع ہو، مغز دماغ میں رہے اور فضلہ بڑی آنت میں جمع ہو۔ فرض کیجئے کہ خون رگوں کی بجائے مثانہ میں چلا جائے اور پیشاب مثانہ میں رہنے کی بجائے رگوں اور شریانوں میں دوڑنے لگے، فضلہ دماغ میں پہنچ جائے اور مغز آنتوں میں چلاجائے، تو کیا ایسی صورت میں انسانی جسم کا نظام فاسد نہیں ہوگا؟ اور جب انسان کے جسم میں اس قسم کا انقلاب برپا ہوگا تو اس انقلاب کے بعد وہ جسم کتنی دیر تک زندہ رہ سکے گا؟۔
جس طرح اللہ تعالیٰ نے عالم صغیر کے لئے ضابطے بنائے ہیں اور جب تک انسان ان اصولوں اور قوانین کے مطابق عمل کرتا رہے گا، صالح رہے گا، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے عالم کبیر خصوصاً اسلامی ریاست کے لئے بھی ایک قانون وضع کیا ہے۔ جب تک وہ ریاست اس قانون کے مطابق چلتی رہے گی، صالح رہے گی اور جب اس قانون کے خلاف اس میں انقلاب لایا جائے گا تو معاشرہ میں فساد برپا ہوگا اور ریاست اپنا وجود کھو بیٹھے گی۔ (اقتباس)