منافع بخش دوست

خود غرضی ہر اک شئے کی ہے بنیاد آج کل
اخلاص و دوستی کا زمانہ گذر گیا
منافع بخش دوست
گجرات فسادات پر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کے تناظر میں امریکہ کے بشمول یوروپ و مغربی دنیا کے تمام ملکوں میں ناراضگی پائی جاتی ہے۔ اس لئے امریکہ نے مابعد گجرات مسلم کش فسادات نریندر مودی کو ویزا دینے سے انکار کردیا تھا۔ اب حالات کو بدلتا دیکھ کر امریکہ کی پالیسی بھی بدل رہی ہے۔ اس خبر پر امریکہ کا موقف متزلزل ہوگیا ہے کہ امریکی سفیر برائے ہند نے گجرات میں بی جے پی وزارت عظمیٰ کے امیدوار نریندر مودی سے ملاقات کی۔ یوروپی ملکوں اور آسٹریلیا کے بعد ایسا معلوم ہوتا ہیکہ آنے والے عام انتخابات میں بڑی کامیابی کے ساتھ اقتدار پر آنے کی پیش قیاسیوں کے مدنظر نریندر مودی کا بائیکاٹ ختم کرنے امریکہ نے بھی غور کرنا شروع کیا ہے۔ امریکی سفیر نینسی پاویل اور مودی کی مجوزہ ملاقات سے امریکہ کے دوہرے پن کا اظہار ہوتا ہے وہ ایک طرف عالمی سطح پر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے مرتکب افراد کو سزاء کا مستحق سمجھتا ہے دوسری طرف برسوں سے نریندر مودی کو ناپسندیدہ شخص متصور کرکے اس کو نظرانداز کرنے کے بعد اب اس سے راہ و رسم استوار کرنے کی کوشش سے کئی سوال اٹھتے ہیں کہ آیا امریکہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا عالمی ڈرامہ صرف اپنے مفادات کی خاطر رچاتا ہے۔ امریکہ کے ساتھ ہندوستان کے تعلقات کے بارے میں جو کچھ سرگوشیاں ہوتی ہیں اس سے بی جے پی کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار سے نینسی پاویل کی ملاقات پر ناراضگی ظاہر کرنے والے گروپ کیلئے یہ تبدیلی افسوسناک ہوگی۔ بی جے پی کے اوورسیز فرینڈ برائے امریکہ تنظیم کے صدر چندرکانت پٹیل نے اس سفارتی ملاقات کے لئے اوباما نظم و نسق کے فیصلہ کا خیرمقدم کیا۔ مودی کو فی الحال ملک کا سب سے بڑا مقبول عام لیڈر تصور کیا جارہا ہے۔ اس تصور کے ساتھ یہ بھی واضح ہوتا ہیکہ مغربی ملکوں نے مودی کو کلین چٹ دیدی ہے جبکہ چیف منسٹر گجرات کے خلاف عالمی انسانی حقوق کے گروپ نے شدید تنقید کی ہیکہ مودی کی پذیرائی کا مطلب 2002ء میں گجرات کے مسلم کش بدترین فسادات پر چشم پوشی اختیار کرنا ہے۔

ان فسادات کی آگ اور تپش کو کل تک سارے انسانی حقوق کے علمبردار محسوس کرتے تھے لیکن اب ان کے رویہ میں تبدیلی کو افسوسناک قرار دیا جارہا ہے۔ 2005ء میں امریکہ نے اندرون ملک قانون کے تحت مودی کیلئے ویزا دینے سے انکار کرتے ہوئے پہلے کے ویزے کو واپس لے لیا تھا۔ امریکی قانون کے تحت کسی بھی ایسے شخص کو امریکہ میں داخلے پر سخت پابندی ہوتی ہے جس نے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی ہو اور مذہبی آزادی کی سنگین خلاف ورزیوں کا مرتکب ہوا ہو۔ مودی کو کل ان بے گناہوں، مسلم کش فسادات کے ارتکاب کے الزمات کے تحت نفرت کیا جاتا تھا اور ویزا دینے سے انکار کیا گیا تھا۔ گجرات فسادات کیلئے مودی کے سابق وزیر کو جیل بھی ہوئی ہے۔ مودی حکومت کے کئی وزراء مسلم کش فسادات کے خاطی ہیں۔ 97 مسلمانوں کو زندہ جلا کر ہلاک کرنے کیلئے مودی کی سابق وزیر نے ہجوم کو اکسایا تھا اب وہ جیل میں ہے۔ اسی وجہ سے مودی کو امریکی کانگریس کے ارکان کے بشمول کئی ارکان کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ اب مودی کو ہندوستان کا ابھرتا لیڈر مان کر ان کی جانب روابط کو فروغ دیا جارہا ہے تو یہ سرمایہ دارانہ نظام کی پوجا کرنے والوں کی حمایت کرنا ہے۔ عام انتخابات کیلئے ابھی 3 ماہ باقی ہیں اور یہ تین ماہ کسی بھی لیڈر اور عوامی رائے تبدیل کرنے کیلئے کافی ہوتے ہیں۔ ہندوستانی عوام کی جس طرح سے ذہن سازی کی جارہی ہے اگر اس میں بیرونی طاقتوں کا بھی ہاتھ ہے تو پھر ساری دنیا کی مفاد پرستانہ سیاست کرنے والی طاقتیں بی جے پی کے امیدوار کو ہی اپنا آئیڈیل لیڈر مان کر اس کی تائید کریں گی لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہندوستان کے رائے دہندہ کا ذہن پختہ ہوچکا ہے وہ صرف دیانتداری سے کام کرنے والوں کو پسند کررہا ہے۔ دہلی میں عام آدمی پارٹی کی کامیابی کے بعد یہ واضح ہوچکا ہیکہ ہندوستانی رائے دہندہ کو اپنی پسند کا لیڈر منتخب کرنے کا ہنر آ گیا ہے۔

یہ ادویات ہیکہ بعض طاقتیں دھاندلیوں کے ذریعہ خود کو کامیاب بنانے کی کوش کرتی ہیں اسی کوشش کے حصہ کے طور پر فرقہ پرست طاقتوں نے جس طرح کی انتخابی مہم اور تشہیری کا آغاز کیا ہے یہ روپئے کو پانی کی طرح بہانے کے مترادف ہے۔ جس ملک میں عوام کو کئی مسائل درپیش ہوں وہاں صرف فرد واحد لیڈر کیلئے کروڑہا روپئے خرچ کرنا حماقت ہے۔ امریکہ بھی اس حماقت کا ساتھ دیتا ہے تو پھر عالمی سطح پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ماتم کرنے والے گروپس کی یہ ڈوغلی پالیسی کا انجام برا ہوگا۔ حالیہ تاریخ سے یہ ظاہر ہوتا ہیکہ منافع خوری کی خاطر کسی کو بھی ماں، باپ بنا لیا جارہا ہے۔ سیاسی حالات اور تقاضوں کو بالائے طاق رکھ کر غلط طریقوں سے دوستی کی جارہی ہے۔ اس طرح کی منافع بخش دوستی اور تعلقات ہندوستان کیلئے مستقبل میں سنگین خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ امریکہ کی تاجر برادری کی خاطر ہندوستان کی موجودہ سیاسی کیفیت کے ساتھ کھلواڑ کرنے کی کوشش سے رائے دہندوں کو باخبر رکھنے کی ضرورت ہے۔