یوں جو سوچو گے تو ہر غم کا مداوا ہوگا
جو ہوا ٹھیک ہوا ، ہوگا جو اچھا ہوگا
مملکت فلسطین اور ویٹکن
فلسطین کو مملکت کا درجہ دینے اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کے سال 2012 ء میں کئے گئے فیصلہ کااثر یہ ہورہا ہے کہ ایک بعد دیگر طاقتیں بھی اسرائیل کی جارحیت کو روکنے کیلئے فلسطین کو مملکت کی حیثیت سے تسلیم کرنے لگی ہیں، ویٹکن کی جانب سے فلسطین کو مملکت کے طورپر قبول کرلیا جانا مشرق وسطیٰ میں خاص کر فلسطین میں کیتھولک گرجا گھروں کی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کے لئے فلسطینی اتھارٹی کی فراخدلانہ پالیسی کا ردعمل متصور ہوگا ۔ فلسطین کو اس کا جائز حق دینے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے والی دو طاقتیں اسرائیل اور امریکہ کو یہ بات ہرگز قبول نہیں ہورہی ہے کہ ویٹکن کے پوپ نے فلسطینیوں کے ساتھ اپنے روابط کو فروغ دینے سفارتی تعلقات کو مضبوط بنانے معاہدے کئے ہیں۔ فلسطین کے ساتھ ویٹکن کے سفارتی تعلقات 1994 ء سے جاری ہیں لیکن جب نومبر 2012 ء میں اقوام متحدہ نے فلسطین کو ایک غیررکن مبصر کے طورپر قبول کیا تو ویٹکن نے اپنی سرکاری دستاویزات میں فلسطین کا ’’ایک مملکت ‘‘ کے طورپر حوالہ دیا ہے ۔ ویٹکن فلسطین کے درمیان نئے معاہدہ پر مستقبل قریب میں دستخط ہوں گے ۔ ویٹکن کے اس فیصلہ سے اسرائیل کو شدید مایوسی ہوئی ہے ۔ اسرائیل کو یہ بات ہرگز قبول نہیں ہے کہ فلسطین کو مملکت کادرجہ دیا جائے لیکن وہ اس حقیقت سے چشم پوشی اختیار کررہا ہے کہ فلسطین کو مملکت کے طورپرتسلیم کرنے ہی میں اس کی بھلائی ہے ۔ اسرائیل ۔فلسطین کے درمیان جاری جھگڑے کو ختم کرنے کیلئے امن مذاکرات کی بحالی ہی واحد حل ہے مگر اسرائیل کو اپنی جارحانہ پالیسی پر اتنا غرور ہے کہ وہ فلسطینیوں کی حقیقت اور ان کے وجود کو برداشت کرنے سے گریز کرنے کی غلطی کرتا آرہا ہے ۔ ویٹکن کے پوپ فرانسیس نے مئی 2014ء میں اس خطہ کا دورہ کرتے ہوئے دو قومی نظریہ کا حل پیش کیا تھا اور اسرائیلی قائدین کی سیاسی چالبازیوں کی مذمت کی تھی ۔ فلسطین کے ساتھ مذاکرات نہ کرنے کی ہٹ دھرمی کے نتائج آگے چل کر اسرائیل کے خلاف مضبوط عالمی مورچہ کی شکل میں سامنے آئیں گے تو پھر یہودی مملکت کو اپنی پالیسی و ہٹ دھرمی کی وجہ سے ہونے والا خسارہ برداشت کرنا پڑے گا ۔ مگر یہ بات بھی غیریقینی ہے کہ اسرائیل کے معاملہ میں عالمی طاقتیں فلسطین کا ساتھ دیں گی یا نہیں کیوں کہ کئی ملکوں نے خاص کر آفریقہ ، ایشیاء اور جنوبی امریکہ کے ملکوں نے فلسطین کو مملکت کا درجہ دیا ہے۔ مغربی یوروپ میں سوئیڈن نے بھی گزشتہ سال قدم اُٹھاتے ہوئے فلسطین کو مملکت کے طورپر قبول کیا تھا ۔ یہ پہلا موقع ہے کہ پوپ فرانسیس کی قیادت میں ویٹکن نے یہ سفارتی قدم اٹھایا ہے ۔ ان کے اس اقدام سے یوروپی یونین کی حکومتوں کی سوچ میں بھی فلسطین کے حق میں تبدیلی آئے گی ۔ دیگر ممالک پر بھی اس کا مثبت اثر پڑے گا ۔ اسرائیل برسوں سے حسب عادت مسلمہ اصولوں کو پامال کرتے ہوئے بین الاقوامی قوانین اور تمام اخلاقی اقدار کو پست پشت ڈالتے آرہا ہے اس پر ویٹکن کے فیصلہ کا اُلٹا اثر ہوتا ہے تو وہ فلسطین کے ساتھ امن مذاکرات کی میز پر آنے سے انکار کردے گا کیوں کہ اس کا سرپرست امریکہ نے بھی ویٹکن کے اقدام کو مایوس کن قرار دیا ہے ۔ امریکہ کو صرف اسرائیل کی ضروریات کا خیال ہے اس کی ناقدریوں اور غیرقانونی و غیراخلاقی حرکتوں کا نوٹ لینے کی توفیق نہیں ہوتی یا پھر امریکہ جان بوجھ کر اسرائیل کی جارحیت پر پردہ ڈالنے کی ہی اپنی ایک نکاتی پالیسی رکھتا ہے ۔ اسرائیل کے حق میں امریکہ اور اس کی تنظیمیں اور خیراتی ادارے مل کر اتنی امداد روانہ کرتے ہیں کہ یہ ملک فلسطین کے سینے پر بیٹھ کر اس کی ہی سرزمین کو اندھا دھند طریقہ سے ہڑپ کرنا چاہ رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے قانون کے مطابق اسرائیل مزید بستیاں تعمیر نہیں کرسکتا اس کے توسیع پسندانہ عزائم کو روکنے کی کوشش بھی کی گئی لیکن اس کو حاصل امریکی اور دیگر مغربی ملکوں کی سرپرستی کے باعث وہ اپنی حرکتوں سے باز نہیں آرہا ہے ۔ ویٹکن کے فیصلہ کے بعد مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر تشویش رکھنے والوں کو کچھ راحت ضرور حاصل ہوگی ۔ اس ایک اقدام کے سہارے فلسطین کو اس کا جائز حق دلانے کی جانب اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔ امریکہ اور یوروپی ممالک کو حقیقت سے راہ فرار اختیار کرنے کے بجائے اسرائیل کے خلاف اپنا موقف سخت کرنا چاہئے تاکہ یہودی قیادت کو اس کی بساط کا احساس دلایا جاسکے ۔