اب اپنا اختیار ہے چاہیں جہاں چلیں
رہبر سے اپنی راہ جدا کرچکے ہیں ہم
ممتا بنرجی اور مایاوتی کا موقف
لوک سبھا انتخابات کے بعد مرکز میں حکومت سازی کا عمل انتخابی نتائج پر منحصر ہے۔ کسی بھی پارٹی کو قطعی اکثریت نہ ملنے کی صورت میں سودے بازی کا طوفانی مرحلہ شروع ہوگا۔ نتائج سے پہلے ہی این ڈی اے کو اقتدار ملنے کی پیشن گوئیوں کے درمیان ترنمول کانگریس کی سربراہ ممتا بنرجی اور بہوجن سماج پارٹی صدر مایاوتی نے نریندر مودی کی قیادت میں این ڈی اے حکومت کی تائید کے امکان کو مسترد کردیا ہے۔ ان دونوں خواتین یا ان کی طرح دیگر خاتون قائدین کا مستقبل کا موقف کس حد تک مستحکم ہوگا یہ کہنا مشکل ہے۔ چیف منسٹر جیہ للیتا ہوں یا کسی اور علاقہ کے سیاسی لیڈر کی حکمت عملی کے بارے میں کوئی واضح بات سامنے نہیں آسکتی۔ حکومت بنانے کے لئے این ڈی اے کسی بھی حد تک جاسکتا ہے۔ نریندر مودی نے وزارت عظمیٰ کا خواب دیکھ کر جس طرز کی کئی بلین روپیوں کی انتخابی مہم چلائی ہے اس سے یہی اندازہ ہورہا ہے کہ این ڈی اے اس خرچ کردہ رقم کا سود سمیت حساب وصول کرے گی۔ عوام الناس کے لئے یہ سمجھنے میں کوئی مشکل نہیں ہونی چاہئے کہ بی جے پی نے ان انتخابات کو خالص تجارت کی اساس پر لڑا ہے۔ تمام بڑے کارپوریٹ گھرانوں کی تائید حاصل ہے۔ نائب صدر کانگریس راہول گاندھی اپنی انتخابی مہم کے دوران عوام کو ہر موقع پر آگاہ کرتے آرہے ہیں کہ اگر نریندر مودی کو اقتدار مل جائے تو ملک میں 22000 عوام کا قتل عام ہوگا۔ راہول کا یہ ریمارک انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی متصور ہوا اس لئے الیکشن کمیشن نے نوٹس جاری کیا۔ اس طرح کے ریمارکس یا الیکش کمیشن کی کارروائیوں سے بھیانک مستقبل کو پوشیدہ نہیں رکھا جاسکتا جو بی جے پی کے خفیہ ایجنڈہ کاک حصہ ہے۔ مودی نے جو منصوبہ بنایا ہے وہ کسی پر عیاں نہیں ہے لیکن خفیہ منصوبوں کے تعلق سے اس ملک کا ہر سیکولر شہری یہی گمان کرے گا کہ نریندر مودی نے گجرات میں جس طرح کی حکمرانی کی اقلیتوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے ہیں یہی عمل پورے ملک میں دہرایا جاسکتا ہے۔ یہ قیاس کی باتیں ہیں۔ اگر واقعی نریندر مودی مسلمانوں کے صفایا کا ارادہ رکھتے ہیں ملک کا مسلمان اور دیگر سیکولر افراد اتنے کمزور نہیں ہیں کہ ایک ظالم حکمراں کو زیادہ دیر تک برداشت کرسکیں۔ جہاں تک اقتدار پر آنے کا سوال ہے یہ بی جے پی کی حلیف پارٹیوں اور اس کو ملنے والی نشستوں پر منحصر ہے۔ مودی کے آنے سے پہلے ملک میں فسادات ہوئے ہیں۔ حال ہی میں آسام کے فسادات یا یوپی کے مظفر نگر کے فسادات کے متاثرین ہوں یا گجرات کے ہزاروں بے سہارا مسلمانوں متاثرین اور غم زدہ خاندانوں کی کوئی دادرسی نہیں ہوئی ہے۔ مغربی یوپی کے ضلع مظفر نگر میں فسادات کو 10 ماہ گزر گئے ہیں فسادات میں عصمت ریزی کا شکار خواتین کے ساتھ ہنوز کوئی انصاف نہیں ہوا ہے۔ 2012 ء میں دہلی میں ایک لڑکی کی عصمت ریزی واقعہ کے بعد عصمت ریزی کے خلاف قوانین کو سخت ترین بنادیا گیا تھا۔ اس کے باوجود مظفر نگر فسادات میں عصمت ریزی کا شکار خاطی ہنوز آزاد گھوم رہے ہیں۔ یہ حکومت اور پولیس کی ناکامی کا بدترین واقعہ ہے۔ متاثرہ خواتین نے حکومت اور نظم و نسق پر الزام عائد کیاکہ ان کے ساتھ زیادتی کرنے والوں کو سزا دینا تو دور کی بات حکومت کی طرف سے ملنے والی رقم بھی ان تک نہیں پہونچی ہے۔ متاثرہ مسلم خواتین نے حملہ آوروں کا نام، پتہ اور خاندان کا شجرہ بتانے کے باوجود بھی کئی خواتین کو انصاف نہیں ملا۔ نریندر مودی کی حکومت بنتی ہے تو پھر سارا ملک ناانصافیوں سے متاثر ہوگا۔ ملک کی سب سے بڑی اقلیت کو یہی تشویش ہے کہ حکومت اور نظم و نسق مل کر ایک خوف کا ماحول پیدا کرے تو جمہوری نظام میں اقلیتوں کو آئین میں برابری کے حق کی ضمانت کی حوالے سے آواز اُٹھانے کی کوئی ہمت نہیں کرسکے گا۔ مگر سیکولر ہند کی خوبی یہی ہے کہ یہاں اب بھی سیکولر مزاج کے حامل قائدین اور عوام ہیں جن کی مدد سے اقلیتوں کو انصاف ملنے کی توقع کی جاسکتی ہے۔ گجرات فسادات کی طرح مظفر نگر کے فسادات میں بھی پولیس کا کردار مشکوک رہا ہے۔ فسادات کے 10 ماہ بعد بھی 22 ملزمان کے منجملہ صرف دو کو گرفتار کیا گیا۔ عصمت ریزی کے نئے قانون کی رو سے ہی کارروائی کی جائے تو پولیس کو خاطیوں کی گرفتاری میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی۔ لیکن قانون بنانے اور اس پر عمل کرنے میں بڑا فرق ہے۔ نئے قانون کو نافذ کرنے کے لئے پولیس اور عدلیہ کو پابند ہونا ضروری ہے لیکن قانون نافذ کرنے والوں کے دلوں میں تعصبات پائے جائیں تو انصاف کی ہرگز توقع نہیں کی جاسکتی۔ پولیس اور نظم و نسق مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کرتے ہیں اور جب نریندر مودی جیسے حکمراں کا اقتدار ہو تو ان لوگوں کو کھلی چھوٹ مل جاتی ہے۔ ہندوستان میں چند فرقہ پرست سیاسی پارٹیاں ہیں تو کئی پارٹیاں سیکولر مزاج کی حامل ہیں اس سے ان سیاسی پارٹیوں کو مسلمانوں کے خلاف ہونے والی زیادتیوں اور ناانصافیوں کے خلاف آواز اُٹھانے میں کوتاہی نہیں کرنی چاہئے۔ نریندر مودی کی تائید نہ کرنے ممتا بنرجی اور مایاوتی کا اعلان اگر سیاسی حالات کے تابع ہوتا ہے تو یہ افسوسناک ہوگا مگر یہ دونوں یا ان کی طرح کوئی بھی سیکولر لیڈر مودی کی تائید نہ کرنے کے عہد کا پابند ہو تو پھر ہندوستان کی اقلیتوں کو مفید سیاسی سہارا ملے گا۔ مگر ان دونوں خواتین کے سیاسی موقف پر قطعی یقین بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اقتدار کے حصول اور وزارت میں حصہ داری کی خواہش وقت آنے پر حمایت کے لئے مجبور کردیتی ہے۔ نریندر مودی نے سارے ملک کے کارپوریٹ گھرانوں اور شیئرز مارکٹ کو سحر انگیز بنادیا ہے اس لئے شیرز مارکٹ کی بڑی کمپنیوں کے شیرز بھی زبردست اُچھال دیکھا جارہا ہے۔ یہ رجحان خطرناک انجام پر ختم ہوسکتا ہے۔ اس لئے اتحاد کے لئلے بی جے پی نے تمام پارٹیوں کو کھلی دعوت دی ہے۔
فضائی آلودگی اور ہندوستان
عالمی صحت تنظیم نے حال ہی میں ساری دنیا کے اندر فضائی آلودگی کا عالمی ڈاٹا جاری کیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ہندوستان میں دنیا کے بدترین فضائی آلودگی سے متاثرہ ملکوں کی صف میں موجود ہے۔ دنیا کے سب سے زیادہ 20 آلودہ ملکوں میں ہندوستان کا 13 واں مقام ہے۔ ملک کے کئی شہر آنے والے دنوں میں فضائی آلودگی کے باعث موت کا کنواں بن جائیں گے۔ جن شہروں میں فضائی آلودگی بڑھ رہی ہے وہاں کے سوکھی حالات بھی ان کی جانوں کے لئے خطرناک بنتے جارہے ہیں۔ ڈائرکٹر جنرل مرکز برائے سائنس اور ماحولیات سنیتا نارائن نے جو ڈاٹا تیار کیا ہے، وہ ہندوستانی عوام کے لئے تشویشناک ہے کیوں کہ ہندوستان کے کئی شہر آہستہ آہستہ خطرناک آلودگی کا شکار ہورہے ہیں۔ آلودگی کی وجہ سے معاشی ترقی پر بھی اثر پڑرہا ہے۔ فضائی آلودگی سے ہونے والے لاحق امراض میں دمہ، پھیپھڑوں کی بیماری، سانس لینے میں تکلیف، فالج کا حملہ اور پھیپھڑوں کا کینسر بھی شامل ہے۔ ہندوستان نے تمام بڑے شہروں میں موٹر گاڑیوں کے دھوئیں، کمپنیوں، فیاکٹریوں کے کثیف دھوئیں سے فضائی آلودگی میں تشویشناک اضافہ ہورہا ہے۔ دونوں شہروں حیدرآباد و سکندرآباد میں بھی فضائی آلودگی نازک صورتحال اختیار کرتے جارہی ہے۔