ملک کے ناگہانی حالات مسلم قیادت کیلئے دعوت فکر

طلاق ثلاثہ ، مسلم تحفظات جیسے حساس مقدمات کے لیے سپریم کورٹ میں کوئی مسلم جج نہیں
لوجہاد ، گھر واپسی اور گاؤ کشی کے نام پر سیکولر ڈھانچہ تباہ کرنے کی سازش
مصلحت پسندی کے بجائے سیکولر طاقتوں کو متحد کرنے سنجیدہ کوششیں ضروری
حیدرآباد۔7ستمبر۔ ملک بھر میں امت مسلمہ عجیب کشمکش سے دو چار ہے اور اس بات کا فیصلہ کرنا امت کے سربراہان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان حالات میں امت کی رہبری کرتے ہوئے ان کی حوصلہ افزائی و شعور بیداری کو یقینی بنائیں بصورت دیگر ان حالات میں امت مسلمہ ناگہانی حالات سے دو چار ہوتے ہوئے مایوسی کی گہری کھائیوں میں غرق ہو جائے گی اس کی تمام تر ذمہ داری ان تمام مدعیان رہبری پر عائد ہوگی جو قوت رکھتے ہوئے مصلحت کوشی کا شکار رہے۔ 2014عام انتخابات کے بعد جو حالات پیدا ہوئے ہیں انہیں دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ملک میں ایک مخصوص فکر اپنے نظریات کو راست و بالواسطہ طور پر فروغ دے رہی ہے اور اس فرقہ پرست نظریہ کے خلاف دوسری فکر ان حالات کو ہوا دینے کی موجب بن رہی ہے جبکہ برسر اقتدار نظریہ کی فرقہ پرستی کے برخلاف اگر سنجیدہ فکر اور سیکولر قوتوں کو یکجا کرنے کی کوشش کی جائے تو اس کے مثبت نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ 11برس بعد عدالت عظمی میں کوئی مسلم جج نہیں ہے اور یہ المیہ ایک ایسے وقت ہے جب ملک کی عدالت عظمی میں طلاق ثلاثہ‘ مسلم تحفظات جیسے اہم ترین مسائل زیر دوراں ہیں۔ سپریم کورٹ آف انڈیا میں موجود ججس کی جملہ تعداد 31ہے اور ان میں فی الحال 4عہدے مخلوعہ ہیں لیکن ان پر مسلم ججس کے فوری تقرر کے کوئی امکانات نہیں ہیں کیونکہ عدالت اور حکومت کے درمیان جاری رسہ کشی کے سبب تقررات کا امکان نظر نہیں آرہا ہے۔ ہندستان کی سپریم کورٹ میں 2012میں مسلم ججس کا تقرر عمل میں لایا گیا تھا اور جن میں جسٹس ایم۔وائی اقبال اور جسٹس فقیر محمد ابراہیم خلیف اللہ شامل تھے لیکن جسٹس ایم وائی اقبال 2فروری 2016کو وظیفہ پر سبکدوش ہو چکے ہیں اور ان کے بعد جسٹس ابراہیم خلیف اللہ 22جولائی کو اپنی خدمات سے سبکدوش ہو چکے ہیں ان دو ججس کے بعد سپریم کورٹ میں اب کوئی مسلم جج موجود نہیں ہے جن سے مسلم مسائل با لخصوص شرعی امور کے متعلق فیصلہ سے قبل مشاورت کی جا سکے۔ ہندستان بھر میں دو ریاستوں میں فی الحال مسلم چیف جسٹس موجود ہیں جن میں جسٹس اقبال احمد انصاری چیف جسٹس پٹنہ ہائی کورٹ ہیں جو آسام سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ دوسرے جسٹس منصور احمد میر چیف جسٹس ہماچل پردیش ہیں جن کا تعلق کشمیر سے ہے ۔ ملک  کی عدالت عظمی میں ایک ایسے وقت مسلم ججس کی عدم موجودگی جبکہ ان کی اشد ضرورت محسوس کی جا رہی ہو نہ صرف ملک کی دوسری بڑی اکثریت کا اعتماد متزلزل کر سکتی ہے بلکہ 2014کے بعد سے پیدا شدہ حالات کے تناظر میں اس کا جائزہ لیا جائے تو ہندستان کی دوسری بڑی آبادی احساس عدم تحفظ کا شکار ہو سکتی ہے

 

کیونکہ 2014عام انتخابات کے بعد سے جو صورتحال پیدا ہو ئی اس میں مسلمانوں کو کہیں ’’لو جہاد‘‘ تو کہیں ’’گھر واپسی‘‘ کے نام پر نشانہ بنایا گیا اور جب اس پر سیکولر قوتوں نے کھل کر ملک کے سیکولر ڈھانچہ کو مستحکم بنانے کی جدوجہد شروع کی تو ’’گاؤکشی‘‘ کے نام پر اخلاق کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ اخلاق کی موت نے ملک میں عدم برداشت کی فضاء کے خلاف ماحول تیار کیا تو ہر اس شہری نے اخلاق کے افراد خاندان سے کھل کر اظہار تعزیت کیا جو ملک کو تباہ ہونے سے بچانا چاہتا ہے اور دانشور طبقہ نے اس مسئلہ کو مسلم مسئلہ بنانے سے گریز کرتے ہوئے اسے ’’حق تغذیہ‘‘ کی آزادی پر ضرب قرار دیا لیکن بعض مفاد پرستوں نے اسے مسلم مسئلہ کے طور پر پیش کیا۔ اسی طرح اب ملک میں جو صورتحال ہے یہ کسی ایک طبقہ یا مذہب کیلئے خطرے کی گھنٹی نہیں ہے بلکہ ہندستان فکری تصادم کی راہ پر گامزن ہے اور اسے اس تباہی سے بچانے کیلئے ضروری ہے کہ تمام طبقات کا اعتماد بحال کیا جائے اور انہیں اس بات کی یقین دہانی اپنے عمل کے ذریعہ کروائی جائے کہ اس ملک کا سیکولر ڈھانچہ مستحکم ہے اور اسے کوئی گزند نہیں پہنچے گی۔11برس کے وقفہ کے بعد ان حالات میں سپریم کورٹ کا مسلم ججس سے خالی رہنا متفکر کرنے کیلئے کافی ہے۔ 2003اپریل سے 2005ستمبر کے دوران بھی سپریم کورٹ میں ڈھائی برس کی طویل مدت تک کوئی مسلم جج نہیں رہے اس سے قبل یہ صورتحال 1988ڈسمبر میں دیکھی گئی تھی۔ 4اپریل 2003کو جسٹس سید شاہ محمد قادری کی سبکدوشی کے بعد جسٹس التمش کبیر کو 9ستمبر 2005کو نامزد کیا گیا تھا اور سپریم کورٹ آف انڈیا میں 4مسلم ججس رہے جو ڈسمبر 2012تا اپریل 2013کے درمیان کی مدت میں موجود تھے جن میںسابق چیف جسٹس التمش کبیر‘ جسٹس آفتاب عالم‘ جسٹس ایم وائی اقبال اور جسٹس ابراہیم خلیف اللہ نے خدمات انجام دی۔