ملک کے موجودہ حالات کے تناظرمیںایک جائزہ

یہ دنیا دارالامتحان ہے ،بغرض امتحان انسانوں کو مختلف احوال سے گزاراجاتا ہے ،دکھ سکھ ،راحت وتکلیف اس دنیا کے لوازمات سے ہیں ،سخت حالات سے کبھی دوچارکیا جاتاہے تو کبھی نرم حالات سے ۔الغرض انسان کی زندگی نشیب وفرازسے عبارت ہے ،یہ حالات ہمیشہ یکساں نہیں رہتے ،کامیابی وناکامی ،جیت وہاراقوام وملل کے درمیان گردش کرتی رہتی ہے ،حقیقی فتح ونصرت ،کامیابی وکامرانی اہل حق کو نصیب ہوتی ہے ،کبھی باطل طاقتیں کامیابی حاصل کرلیتی ہیں لیکن انکی کامیابی عارضی کامیابی ثابت ہوسکتی ہے بشرطیکہ اہل حق ۔حق کے لئے جینے اورمرنے کا حوصلہ پیداکرلیں۔اسلام ہی دین حق اوراسکے سارے احکام سرتا پا خیرہیں ،اسلام کے سواجتنے مذاہب ہیں وہ باطل اور شرکے علم بردارہیں ،اسلام کا شجرسایہ داررحمتوں کی باغ وبہار دیتا ہے ۔اسلام کے دامن رحمت میں پناہ حاصل کرنا ہوتوکلمہ طیبہ کا زبان سے اقراراوردل سے یقین ضروری ہے،ظاہرہے اسکے ساتھ ہی اس مبارک کلمہ کے تقاضے ایمان لانے والے پر لازم ہوجاتے ہیں۔ کلمہ طیبہ سے مراد ایمان اورکلمہ خبیثہ سے مراد کفرہے ،اللہ سبحانہ نے ایک بلیغ تمثیل کے ذریعہ دونوں کے فرق کو واضح فرمایاہے ،ایمان کی مثال ایک پاکیزہ اورطیب درخت جیسی ہے ،عمدہ وپاکیزہ درخت کی جڑیں گہرائی میں پیوست ہوتی ہیں ،بادوباراں اس کو جگہ سے نہیں ہٹا سکتے ،اسکی شاخیں وسیع وعریض اوربلندہوتی ہیں اورانکی بلندی آسمانوں سے باتیں کرتی ہے،اوروہ بڑاثمرآورہوتا ہے،اسکے پھل بڑے شیریں اورحیات بخش ہوتے ہیں ،ایمان کا تخم جب دل کی زمین میں بودیا جاتا ہے تو اس کا اثرونفوذ دل کی عمیق گہرائیوں تک رسوخ حاصل کرلیتا ہے،اورایسا قلب ایمان ویقین کی کیفیات کا گویایک چمنستان بن جاتاہے، ایمانی کیفیات سے معمور اسکے سرسبزوشاداب شجربڑے تناوراورمضبوط ہوتے ہیں۔ کفروشرک ،ظلم وجورکی تیزوتندآندھیاں اس کا کچھ نہیں بگاڑسکتیں ۔مادی درخت موسم میں پھل دینے کے پابندہیں لیکن ایمان کا روحانی شجراعمال صالحہ کے شیریں وخوش ذائقہ پھلوں سے ہمیشہ لدارہتا ہے،ایمان وایقان کے انواردل کی دنیا کو سکینت کے مرغزارمیں تبدیل کردیتے ہیں۔ارشادباری ’’جولوگ ایمان لائے انکے دل اللہ کے ذکرسے اطمینان پاتے ہیں، یادرکھو!اللہ سبحانہ کے ذکرہی سے دلوں کے اطمینان اورانکے چین وسکون کا سامان ہوتاہے‘‘(الرعد:۲۸)کے مطابق ایمانی کیفیات کے روح پرورجلوے اسکے اعضاء وجوارح اوراسکی زندگی کے شب وروز سے جھلکنے لگتے ہیں۔ایمان والے کیلئے ضروری ہوجاتا ہے کہ ہر طرح کی قربانی دیکر  اسکی ہرطرح حفاظت کرے ،غیرمومنانہ کرداراورغیرصالح افکارسے اس ایمانی کیفیات کے چمنستان کو جھلسنے سے بچائے،الغرض ایمان اورایمان کے تقاضوں  کی تکمیل پر اللہ سبحانہ کے وعدے اور اسکی بشارتیں ہیں ۔ ارشادباری ہے’’نہ دل شکستہ ہوں نہ غمگین ہوں تم ہی غالب رہوگے اگرتم مومن ہو‘‘(آل عمران:۱۳۹) ظاہرہے ایمان کی قوت کے آگے مادی قوتیں دم توڑدیتی ہیں،ایمان ویقین دلوں میں راسخ ہوتودنیا کی کوئی طاقت اسکا مقابلہ نہیں کرسکتی ،اللہ سبحانہ کا وعدہ ہے’’اے ایمان والو! اگرتم اللہ (کے دین) کی مددکروگے تو اللہ سبحانہ تمہاری مددکریگااورتمہیں ثابت قدم رکھے گا‘‘۔(محمد:۶۰)

اللہ سبحانہ کوکسی کی احتیاج نہیں ساری کائنات اسکی محتاج ہے ،یہاں اللہ سبحانہ کی مددسے مراد اس کے دین کی مددہے۔ کیونکہ اللہ سبحانہ کی سنت یہی ہے کہ وہ دین کی حفاظت کا کام اپنے منتخب بندوں سے لیتے ہیں ،اللہ سبحانہ کے دین کا عمل کے ذریعہ اور دعوت وتبلیغ کے ذریعہ حفاظت کا فرض پورا ہوتا رہے تواللہ سبحانہ کی نصرت مددگارہوجاتی ہے اوراہل حق کو باطل پر غلبہ حاصل ہوجاتاہے ۔ایک اورجگہ ارشادہے’’اللہ سبحانہ اس کی ضرور مددفرماتا ہے جو اسکی مددکرتا ہے‘‘(الحج:۴۰) ’’اللہ سبحانہ جب تمہاری مددفرمائے توتم پر کوئی غالب نہیں آسکتا اوراگروہ تمہیں چھوڑدے تواسکے بعدپھر کون ہے جو تمہاری مددکرے‘‘(آل عمران:۱۶۰)۔اسلام دین حق ہے اس نے جو ضابطہ حیات دیا ہے وہ زندگی کے سارے شعبوں کا احاطہ کرتاہے ،ایسا نہیں کہ انسانی زندگی کے کچھ شعبے دین کے رنگ میں رنگے ہوں اوردیگرشعبے دین حق کی روشنی سے بے نورہوں ۔اسلام کا مزاج اوراس کی بنیادی فکر یہ ہے کہ دین انسان کی پوری زندگی میں آجائے ، ایمان کی نعمت نصیب ہوجانے کے بعداسلام کے سوا پھر کوئی اورنظام حیات قابل قبول نہ ہو ،ایمان کے ساتھ بیک وقت کوئی اورباطل نظام حیات جمع نہیں ہوسکتا ۔’’ اورجو کوئی اسلام کے سوا بطوردین(نظام حیات)کسی اورنظام زندگی کو پسندکرے تواللہ سبحانہ کے ہاں وہ قابل ردہے اوراسمیں اسکی آخرت کا نقصان وخسران ہے ‘‘۔(آل عمران:۸۵)ایمان اورتقوی یعنی تقاضاء ایمان کی تکمیل سے رحمتوں کے دروازے کھلتے ہیں ،ایمان وتقوی سے صلاح وفلاح کی راہیں ہموارہوتی ہیں،ملک کی موجودہ صورتحال ہمیں دعوت غوروفکردے رہی ہے کہ ہم انفرادی واجتماعی ہرطرح سے اپنا جائزہ لیںاورمحاسبہ کریں ،جوان وبوڑھے، مردوخواتین سب دین اسلام کو عزیز ازجان بنالیں ،دین کو زندگی کے سارے شعبوں میں جاری کریں ،نسل نوکی دینی نہج پر آبیاری کریں۔اخباری اطلاع کے مطابق آرایس ایس نے سارے ملک میں اپنی شاکھاؤں کا جال بچھادیا ہے ،آئے دن اس میں اضافہ کرنے کی اطلاع ہے ،ان شاکھاؤوں میں نئی نسل کا برین واش کیا جا رہا ہے ،

اورانکے دلوں میں اسلام اورمسلمانوں کیلئے نفرت کا تخم بویا جارہا ہے،انکی مسلسل کوششوں کے نتیجہ میں ۴۵ سال کی عمرکے افراد کی ایک بڑی تعداد آرایس ایس کی فکری غلامی کا شکارہوتی جارہی ہے،پھرکیوں ہم اپنی ملت کی خدمت کیلئے آبادی کے تناسب سے دینی وعصری طرزکی درسگاہیں قائم نہیں کرتے اورکیوں ہم اپنی فکری اصلاح کے ساتھ نوجوان نسل کی ذہن سازی کا کام کرکے ان کو ایک اسلام کا مجاہد وسپاہی کیوں نہیں بناتے ؟اورغیرمسلم برادران وطن کے اندرنفرت کا جو زہر گھولا جارہا ہے اسکے تدارک کیلئے کوئی سنجیدہ منصوبہ بندکوشش نہیں کرتے۔ بابری مسجدکے انہدام سے پہلے بھی ملک دشمن طاقتیں اپنی ناپاک کوششوں میں لگی ہوئی تھیں، لیکن بابری مسجد کے انہدام کے بعد انہوں نے اپنی متنفرانہ و جارحانہ کوششوں کو تیزتر کردیا ہے ،پھربھی ہم خواب غفلت سے بیدارنہیں ہوئے اورنہ ہی ہم نے انفرادی واجتماعی طورپر اسلام کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کی اورنہ ہی کوئی اصلاحی لائحہ عمل تیارکیا،غیروں کی منصوبہ بندی اورہماری غفلت بالآخررنگ لائی ،دشمن طاقتیں اپنے درمیان ہزارہا اختلاف کے باوجوداسلام اورمسلمانوں کی مخالفت میں متحدہوچکی ہیں،انتخابی نتائج اسکے گواہ ہیں ۔امت مسلمہ جن کے بیچ اتحاد واتفاق کی عظیم ترالہی وآفاقی بنیادیں موجود ہیں لیکن اس کے باوجودانتشاراس کا مقدربن گیا ہے ،اس لئے زندگی کے سارے شعبوں میں خواہ وہ معاشرتی شعبہ ہوکہ سیاسی ہر محاذپر اتحادکی ضرورت کو نہ صرف محسوس کیا جائے بلکہ عملی اقدامات بھی روبہ عمل لائے جائیں ،سارے عالم اور سیکولرملک ہندوستان وامریکہ وغیرہ کے جوحالات مسلمانوں کے خلاف بن گئے ہیں وہ کوئی خلاف توقع نہیں ہیں ،جب جب ملت اسلامیہ اسلامی طرزفکرسے دست کش ہوکر اغیارکے باطل افکارکی اسیرہوئی ہے اورغفلت کی چادرتان کر سوتی رہی ہے اس کو جھنجھوڑنے اورخواب غفلت سے بیدارکرنے کیلئے اللہ نے ظالم حکمرانوں کو ملت اسلامیہ کے سروں پر مسلط کیا ہے ۔علامہ ابن قیم فرماتے ہیں’’اللہ سبحانہ کی حکمت کی کارفرمائی ہے کہ اس نے امت کے اعمال کی نسبت سے ان پر ایسے ہی امراء وحکام کو مسلط کیا ہے ،بلکہ یوں کہا جائے تو درست ہوگا کہ انکے اعمال ظالم امراء وحکام کی صورت میں ظاہرہوئے ہیں،اگرمسلمان دین پر استقامت اختیارکریں گے اوراعمال درست کرلیں گے توانکے حکمران بھی درست وصحیح ہونگے ، اگر وہ درست اعمال سے انحراف کریںگے تو حکمران بھی ا ن کے حقوق سے منحرف ہونگے ،اگروہ ظلم وجورکونصب العین بنالیں گے توان پر بھی ظالم حکمران مسلط ہونگے ،افراد امت میں کیدومکراوردھوکہ عام ہوگاتوانکے حکمران بھی اسی طرح کے ہونگے،اللہ سبحانہ کے جوحقوق ان پر عائد ہیں اس سے پہلوتہی کرینگے اورانکے اداکرنے میں تساہل سے کام لیں گے توانکے والی وحکمران بھی رعایہ کے جوحقوق ان پر عائد ہوتے ہیں وہ اس سے کوتاہی کریں گے ،اپنی امت کے کمزوں سے زوروزبردستی معاملات میں وہ کچھ حاصل کرلیں گے جس کے وہ مستحق نہیں توملوک وموالی ان سے ظلما وہ کچھ حاصل کرلیں گے جس کا ان(ملوک)کو استحقاق نہیں ،اوران پرزورزبردستی ٹیکسس عائدکردیںگے اورجوظالم افرادامت نے کمزورں سے زوروزبردستی جوکچھ چھین لیا ہے قوت وطاقت کے بل بوتے پر امراء وملکوک ان سے زوروزبرددستی اس سے زیادہ چھین لیں گے۔ ظاہرہے جب امت خیرپسندانہ نقطہء نظرسے دست بردارہوجائے توانکا شرپسندہونا عنداللہ متحقق ہوجائے گا،سنت الہیہ یہی ہے کہ شرپسندوں ہی کوشرپسندوں پر مسلط کیا جائے ۔(ملخص من مفتاح دارالسعادہ:۱؍۲۵۳) ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ’’جب اللہ سبحانہ کسی قوم سے راضی ہوتے ہیں توان پر اچھے امراء وحکام مقررفرماتے ہیں اوراللہ سبحانہ جب کسی قوم سے ناراض ہوتے ہیں توان پر شرپسندوالی وحکمرا ن مقررفرمادیتے ہیں ‘‘اورآپ نے (الشوری :۳۰)  جوکچھ مصیبتیں پہونچتی ہیں وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کے کرتوت کا بدلہ ہیں جبکہ وہ اللہ تو بہت سی باتوں سے درگزرفرما دیتا ہے ۔سے استدلال کیا ہے (قرطبی۷؍۸۵) امام طرطوشی فرماتے ہیں ’’ہم ہمیشہ لوگوں سے  یہ سنتے رہتے تھے اعمالکم عمالکم کما تکونوا یولی علیکم یعنی تمہارے اعمال تمہارے حکمران ہیں تم جیسے ہونگے تم پر حکمران بھی ویسے ہی ہونگے ،لیکن مجھے ایسے مفہوم ومعنی کے قرآن پاک کی آیت سے پانے میں کامیابی ہوئی اوروہ آیت پاک یہ ہے ’’وکذالک نولی بعض الظالمین بعضا بما کانوا یکسبون‘‘ اوراسی طرح ہم بعض ظالموں کو انکے اعمال کے سبب بعض ظالموں کے قریب رکھیں گے (الانعام:۱۲۹)اسی لئے یہ بات کہی جاتی ہے کہ زمانہ کے جواحوال ہمارے لئے نا پسند ہوتے ہیں دراصل ہمارے اعمال کے بگاڑوفسادکی بنیادپر ہوتے ہیں ،(سراج الملوک:۱۹۷)یعنی اسی طرح ہم ظالموں کے ساتھ برتاؤکرتے ہیں ایک ظالم کو دوسرے ظالم پر مسلط کردیتے ہیں اس طرح ایک ظالم دوسرے ظالم کی ہلاکت وبربادی کا سامان کرنے لگتا ہے اوراس طرح ایک ظالم کا انتقام دوسرے ظالم سے لے لیتے ہیں ۔اس آیت کے ضمن میں ابن کثیر نے بھی اسی طرح کا مفہوم بیا ن فرمایا ہے ’’کذا نفعل بالظالمین ،نسلط بعضہم علی بعض ونہلک بعضہم  ببعض وننتقم من بعضہم ببعض جزاء علی ظلمہم وبغیہم‘‘ (تفسیرابن کثیر۳؍۳۴۰)نادرشاہ کے دورحکومت میں ظلم کی راہ سے انسانوں کے خون سے دلی شہرکی سڑکیں رنگیں ہوگئی تھیں،اس موقع سے کسی بزرگ نے اسی طرح کا بصیرت آمیزپیغام اس بامعنی وپرحکمت جملہ سے دیا تھا’’شامت اعمال مادرصورت نادرگرفت‘‘ان جیسے نا خوشگوارحالا ت میں بحیثیت مجموعی اصلاحی اقدامات کے ساتھ دعاؤں کے اہتما م کی سخت ضرورت ہے ،علامہ حافظ سخاوی رحمہ اللہ نے ان جیسے احوال پر دردبھراتبصرہ کرتے ہوئے اخیرمیں اس ماثوردعا کے اہتمام کی ہدایت دی ہے ’’اللہم لاتسلط علینا بذنوبنا من لا یخافک فینا ولایرحمنا‘‘ اے اللہ ہمارے گناہوں کی پاداش میں ایسے حکمرانوں کو مسلط مت فرمائے جو ہمارے بارے میں آپ سے نہ ڈرتے ہوں اورہم پررحم نہ کھاتے ہوں۔