بعض جگہ دس سال سے تقررات نہیں ، عارضی مدرسین کی حالت غلاموں سے بدتر ، سہولتوں کا بھی مکمل فقدان
حیدرآباد ۔ 27 ۔ ستمبر : ( ایجنسیز ) : ملک کے لیے پرائمری اسکولوں میں تقریبا 9 لاکھ سے زیادہ اساتذہ کی کمی ہے ، صرف ٹیچرس کی ہی کمی نہیں ہے بلکہ تعلیم کا بنیادی ڈھانچہ بھی کافی خستہ ہے ۔ 90,000 سے زیادہ پرائمری اسکولوں کے پاس ایسی عمارت یا اتنے کمرے نہیں ہیں جتنی کہ اسکول کو ضرورت ہے ۔ اس لیے ایک ایک کمرے میں دو ، دو کلاسیس لگائی جاتی ہیں ۔ تقریبا 8000 اسکولوں میں بیت الخلاء نہیں ہیں ۔ حالانکہ وزیراعظم نریندر مودی تقریبا اپنے ہر دوسرے عوامی پروگرام میں تعلیم کی اہمیت بتلاتے ہیں اور ملک کی نئی نسل کو تعلیم پر زیادہ توجہ دینے کی صلاح دیتے ہیں ۔ لیکن پتہ نہیں کہ یہ سوال ان کے ذہن میں کبھی کیوں نہیں آتا کہ جب ملک کے پرائمری اسکولوں میں تقریبا 9 لاکھ سے زیادہ اساتذہ کی کمی ہے تو چاہنے کے بعد بھی ’ تعلیم سب کے لیے ‘ کیسے ممکن ہوسکتی ہے ؟ واضح رہے کہ اساتذہ کی کمی سب سے زیادہ اترپردیش اور بہار میں ہے ، اس کے بعد مغربی بنگال کا نمبر آتا ہے ۔ جہاں تقریبا 85000 ہزار اساتذہ کی کمی ہے ۔ جھاڑکھنڈ میں 78 ہزار اور مدھیہ پردیش میں 66 ہزار اساتذہ کم ہیں ۔ ملک کی راجدھانی دہلی تک میں 7000 سے زیادہ اساتذہ کی کمی ہے ۔ یہ اعداد و شمار کسی این جی او کے نہیں ہیں بلکہ خود مودی حکومت میں محکمہ فروغ انسانی وسائل کے وزیر اوپند کشواہا نے گذشتہ دنوں لوک سبھا میں ایک سوال کے جواب میں دئیے ہیں ۔ ملک میں ’ رائٹ ٹو ایجوکیشن ‘ قانون یکم اپریل 2010 کو لاگو ہوا تھا ۔ تین سال کے اندر زمینی سطح پر اس کو نافذ کیا جاتا تھا لیکن آج تک کچھ نہیں ہوا ، مودی حکومت کے بھی 3 سال گذر چکے ہیں ۔ لیکن 9 لاکھ اساتذہ کی کمی یہ واضح کرتی ہے کہ حقیقت میں تعلیم سے متعلق حکومت کو کتنی دلچسپی ہے ؟ سوال یہ ہے کہ ہم ابتدائی تعلیم پر آخر کیوں خرچ نہیں کرنا چاہتے ہیں ؟ جب یہ سوال سیدھے ، سیدھے مودی حکومت سے پوچھا جاتا تو مرکزی وزیر جواب دیتے ہیں کہ اصول و ضابطے کے مطابق اس کی ذمہ داری ریاستوں کی ہے ؟ دوسری طرف ریاستوں نے اپنے اپنے مقام پر تعلیمی انتظامات پر کتنا دھیان دیا ہے ، یہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے ۔ سوال ہے کہ پھر تعلیم کے بہتری کے لیے آخر مرکز ، ریاستوں کو جواب دہ کیوں نہیں بناتا ہے ؟ اگر مالی مشکلات ہیں تو اسے دور کیا جائے ۔ یوں ہی اصول و ضابطہ اور ذمہ داریوں کی آڑ لی گئی تو نتیجہ کیا نکلے گا ، اس کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔
مدھیہ پردیش جو وزیراعظم صاحب کی نظروں میں بھی ایک ماڈل ریاست ہے اور یہاں کے چیف منسٹر بھی عوامی مسائل سے متعلق کافی سنجیدہ سمجھے جاتے ہیں ۔ اس مدھیہ پردیش کے چار ہزار اسکول میں پوری طرح یا کچھ کم و بیش تعلیمی سہولتیں نہیں ہیں ۔ ملک بھر میں اساتذہ کی لاکھوں جائیدادیں مخلوعہ ہیں ۔ ان حالات میں تعلیم سے متعلق وزیراعظم کا بیان خواب دکھانے کے مماثل ہے ۔ تمام وزراء اور دیگر لیڈرس خانگی اسکولوں کی تعریف کرتے ہیں ۔ لیکن سرکاری اسکولوں میں اساتذہ کی کمی کو پورا کئے بغیر حالات سے کیسے مقابلہ کیا جاسکتا ہے اس کو نظر انداز کردیتے ہیں ۔ اس طرح کے خراب حالات صرف پرائمری تعلیم ہی کی نہیں ہے بلکہ ملک بھر کے مرکزی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں گذشتہ ایک دہائی سے 50 فیصد سے بھی زیادہ پروفیسروں کے عہدے خالی ہیں ۔ جو لکچررس ہیں ان میں بھی بڑی تعداد عارضی اساتذہ کی ہے ۔ ان عارضی لکچررس کو پڑھانے لکھانے اور انتظامی امور کے علاوہ تمام غیر متعلقہ غلامی کا بوجھ بھی اٹھانا پڑتا ہے ۔ کیوں کہ ان کے سر پر کبھی بھی خدمات سے ہٹا دئیے جانے کی تلوار لٹکتی رہتی ہے ۔ دہلی یونیورسٹی جیسے باوقار یونیورسٹی میں بھی جہاں لکچررس کی جملہ جائیداد 9500 ہیں ۔ ان میں سے تقریبا5000 جائیدادیں مخلوعہ ہیں ۔ وہ بھی ایک دو سالوں سے نہیں بلکہ ایک دہے یا اس سے بھی زیادہ وقت سے یہ جائیدادیں مخلوعہ ہیں ۔ اس کے علاوہ تعلیمی اداروں میں زبردست اقربا پروری کی صورتحال بھی پائی جاتی ہے ۔ دراصل قانوناً ہر چار مہینے بعد عارضی اساتذہ یا لکچررس کے کام کی حد ہوتی ہے اور اس کے آدھار پر آگے انہیں کام دیا جاتاہے ۔ یا پھر ان کی خدمات ختم کردی جاتی ہے ۔ دراصل یہی عمل اور اصولو و ضابطہ انہیں اپنی حیثیت اور غلامی کا احساس دلاتی ہے ۔ ایسے میں ان عارضی اساتذہ کی جن خوبی کو سراہا جاتا ہے اور جن کے آدھار پر پھر سے ان کی بحالی کی امیدیں ہوتی ہیں وہ خوبی ہیں ان کی عاجزی و انکساری ، متعلقہ عہدیداروں سے ہمیشہ منت سماجت کے ساتھ بات کرنا اور ہاتھ جوڑ کر کھڑے رہنا ، بڑی سے بڑی نا انصافی کو دیکھتے ہوئے بھی خاموش رہنا ، پوچھے جانے پر بھی کوئی حرکت نہ کرنا اور بھول کر بھی کبھی تعلیم یا تعلیم سے متعلق کوئی تجویز ، مشورے ، یہاں تک کہ اپنا احساس بھی ظاہر نہ کرنا ، ان سب حالات کے باوجود آخر مدرسین نئی نسل کو کیسے تعلیم یافتہ بنا سکتا ہے ؟ گذشتہ تقریبا ایک دہے سے یہ سب اندھیر نگری جاری ہے ، لوگوں کو امید تھی کہ این ڈی اے حکومت آنے کے بعد انہیں اس قسم کی تکلیفوں سے نجات ملے گی لیکن مودی حکومت کے لگ بھگ ساڑھے تین سال گذرجانے کے بعد بھی حالات ذرا بھی ٹھیک نہیں ہوئے ہیں بلکہ ہر گذرتے دن کے ساتھ حالات مزید خراب ہورہے ہیں ۔ گذشتہ 8-10 سالوں سے تو تقررات پر سرکاری پابندی ہے ہی ، اب حکومتیں اپنا پلا جھاڑتے ہوئے تعلیم اور تعلیمی امور کو مکمل طریقے سے خانگی منافع خوروں کو سونپنے کے لیے ٹھیکداروں کو تلاش کررہی ہے ۔ کیا ایسے حالات میں ہندوستان ، عالمی گرو ( دنیا کا رہنما ) بن پائے گا ؟ ۔۔