ملک کی ہردلعزیز شخصیت اے پی جے عبدالکلام کا انتقال

شیلانگ ۔ 27 جولائی ۔ ( سیاست ڈاٹ کام ) سابق صدرجمہوریہ اے پی جے عبدالکلام ’’میزائیل میان ‘‘ جو عوام کے صدر کی حیثیت سے مشہور ہوئے ، قلب پر زبردست حملے کی وجہ سے آج انتقال کرگئے ۔ وہ آئی آئی ایم شیلانگ میں آج شام لکچر دے رہے تھے جبکہ 6:30 بجے شام اُن کے قلب پر حملہ ہوا اور وہ نیچے گر پڑے ۔ عبدالکلام اکٹوبر میں 84 سال کے ہونے والے تھے ۔ اُنھیں آئی سی یو بیتھانی ہاسپٹل نازک حالت میں منتقل کیاگیا جہاں دو گھنٹے بعد انھوں نے آخری سانس لی ۔ انڈین انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ 5:40 بجے شام پہونچنے کے بعد انھوں نے کچھ دیر آرام کیا اور 6:25 بجے ’’قابل رہائش سیارہ ‘‘کے زیرعنوان اپنے لکچر کا آغاز کیا ۔ وہ پانچ منٹ بعد ہی نیچے گر پڑے ۔ ڈائرکٹر آئی آئی ایم شیلانگ کے بموجب پروفیسر ڈاکٹر عبدالکلام نے اپنے ٹوئٹر پر تحریر کیا تھا کہ قابل رہائش سیارے کے موضوع پر لکچر دینے کیلئے شیلانگ جارہا ہوں ، انھیں 7:00 بجے شام بیتھانی ہاسپٹل میں شریک کیا گیا جو انسٹی ٹیوٹ سے ایک کیلومیٹر کے فاصلے پر ہے ۔ ڈائرکٹر نے کہاکہ اسپتال کے عہدیداروں نے اُنھیں کہا کہ عبدالکلام قلب پر حملے کی وجہ سے انتقال کرگئے ۔ اُن کی نعش فوجی ہاسپٹل منتقل کی گئی اور وہاں رات بھر رکھی جائے گی ۔ بعد ازاں ایرفورس کے ہیلی کاپٹر کے ذریعہ کل 5:30 بجے صبح گوہاٹی منتقل کی جائے گی اور وہاں سے خصوصی طیارے کے ذریعہ دہلی روانہ کی جائے گی ۔ اُنھیں مقبول ترین صدر سمجھا جاتا تھا ۔ عبدالکلام گیارہویں صدر مملکت تھے اور 2002 سے 2007 تک عہدہ پر فائز رہے لیکن دوسری میعاد کیلئے اتفاق رائے نہ ہونے کی وجہ سے اُنھیں سیاست کی سخت اور شورش زدہ پہلو کا احساس ہوا ۔ میگھالیہ کے گورنر خبر سنتے ہی اسپتال پہونچ گئے تھے ۔ انھوں نے کہاکہ سابق صدر کا انتقال 7:45 بجے ہوا ، حالانکہ ڈاکٹروں کی ٹیم نے اپنی بہترین کوششیں کی تھیں لیکن اُنھیں بچایا نہ جاسکا ۔ چیف سکریٹری پی بی او ورجیری نے اسپتال کے باہر پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ مرکزی معتمد داخلہ ایل سی گوئل سے بات کرکے اُنھیں عبدالکلام کی نعش کل صبح گوہاٹی سے دہلی منتقل کرنے کے انتظامات کرنے کی خواہش کرچکے ہیں۔ اُنھیں نازک حالت میں بیتھانی ہاسپٹل میں شریک کیا گیا تھا ۔ ایس پی خاصی ہلز ایم کھرکھرانگ نے کہا کہ فوجی ہاسپٹل کے ڈاکٹرس اور شمال مشرقی اندرا گاندھی ریجنل ادارہ برائے صحت و طبی سائنسیس خبر ملتے ہی بیتھانی ہاسپٹل پہونچے لیکن اُن کی کوششیں رائیگاں ثابت ہوئیں۔ صدرجمہوریہ پرنب مکرجی ، وزیراعظم نریندر مودی، مرکزی وزراء اور قائدین نے سیاسی خطوط سے بالاتر ہوکر عبدالکلام کے انتقال پر اظہار تعزیت کیاہے اور عوام کے صدر کی حیثیت سے اُن کی ستائش کی ہے ۔ اور کہا کہ انتقال کے بعد بھی وہ ہمارے ساتھ رہیں گے ۔ مودی نے اُنھیں ’’مارگ درشک (راہبر) ‘‘قرار دیا ۔ مرکزی حکومت نے ملک گیر سطح پر 7 دن تک اُن کا سوگ منانے کا اعلان کیا ہے جبکہ دفاتر اور اسکولس کی تعطیل کا اعلان متعلقہ ریاستی حکومتیں کریں گی ۔ بھارت رتن ابوالفقیر زین العابدین عبدالکلام انتہائی معمولی آغاز سے ترقی کرتے ہوئے غیرمعمولی انداز میں این ڈی اے حکومت کے دوران ملک کے اعلیٰ ترین عہدے تک پہونچے ۔ جب کہ ملک کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی تھے ۔ اُن کی کامیابی کا فیصلہ رائے دہی سے قبل ہی ہوچکا تھا ۔ تمام پارٹیاں سوائے بائیں بازو کی پارٹیوں کے اُن کے انتخاب پر متفق تھیں۔ بائیں بازو کی پارٹیوں نے کیپٹن لکشمی سہگل کو اُن کے مقابلے میں امیدوار مقرر کیا تھا ۔ کیپٹن لکشمی سہگل آزاد ہند فوج میں کیپٹن تھیں۔
میزائیل میان سے صدرجمہوریہ تک
وہ 1931 میں رامیشورم ٹاملناڈو کے ایک غریب خاندان میں پیدا ہوئے تھے ۔ انھوں نے مدراس انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی سے ایروناٹیکس انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی ۔ عبدالکلام کو ہندوستان کے میزائیل پروگرام کا دماغ سمجھا جاتا تھا ۔ وہ چیف سائنٹفک اڈوائیزر برائے وزیراعظم بھی تھے ۔ پوکھران نیوکلیئر تجربہ 1998 ء میں اُن کی ہی سرگرمی کا نتیجہ تھے ۔ انھیں پہلا صدر ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے جنھوں نے سکھوی لڑاکا طیارہ خود اُڑایا تھا ۔ آبدوز کشتی میں سفر کیا تھا اور انتہائی بلند سیاچن گلیشیر کے علاوہ خط قبضہ کا بھی دورہ کیا تھا ۔ وہ 90 سال میں انڈین سائنس کانگریس سے خطاب کرنے والے اولین صدرجمہوریہ تھے ۔ صدرجمہوریہ عبدالکلام نے ہر اُس موقع سے استفادہ کیا جس میں اُنھیں طلباء سے خطاب کرنے کا موقع ملا ۔ خاص طورپر اسکولی طلبہ سے خطاب کرنا اُنھیں بہت پسند تھا ۔ وہ کہتے تھے کہ بڑے بڑے خواب دیکھو تاکہ زندگی میں کچھ کارنامہ انجام دے سکو ۔ سابق صدرجمہوریہ مجرد ہونے کی حیثیت سے وینا بجایا کرتے تھے اور انھیں کرناٹک موسیقی سے بہت لگاؤ تھا ۔ وہ زندگی بھر سبزی خور رہے ۔ نائب صدرجمہوریہ حامد انصاری نے اور تمام ریاستوں کے گورنرس اور چیف منسٹرس کے علاوہ پورے بالی ووڈ میں اُن کا سوگ منایا ۔ حامد انصاری نے انھیں اپنے لئے سرچشمۂ وجدان قرار دیا۔ نامور سیاستدانوں میں لالو پرساد یادو اور اے پی چدمبرم کے علاوہ سماجی جہد کار انا ہزارے بھی اُنھیں خراج عقیدت پیش کرنے میں شامل تھے ۔
جب عبدالکلام نے صدارتی کرسی قبول نہیں کی
ایک تقریب کے دوران جب اے پی جے عبدالکلام کو کرسی صدارت پر تشریف رکھنے کیلئے کہا گیا تو انھوں نے اس پر بیٹھنے سے انکار کردیا ، کیوں کہ یہ کرسی جسامت میں دیگر کرسیوں سے بڑی تھی ۔ یہ اُن کئی واقعات میں سے ایک ہے جو سادگی اور انکساری کے ہم معنی بن گئے ہیں اور عبدالکلام کی عوامی زندگی کا اٹوٹ حصہ تھے ۔