ملک کی معاشی صورتحال

سورج مہیب رات کی کھائی میں گرا پڑا
ٹھوکر بہ وقتِ شام بھرے دن کو لگ گئی
ملک کی معاشی صورتحال
ملک کی معیشت ان دنوں انحطاط اور سست روی کا شکار ہے اور اس وجہ سے اس پر کئی تبصرے بھی ہونے لگے ہیں۔ مختلف گوشوں سے اس پر اظہار خیال کرتے ہوئے کئی وجوہات بیان کی جا رہی ہیں۔ سب سے زیادہ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی پر تنقیدیں ہو رہی ہیں اور یہی دو وجوہات ایسی نظر بھی آتی ہیں جن کی وجہ سے ملک کی معاشی حالت انتہائی ابتر ہوگئی ہے ۔ جملہ گھریلو پیداوار بھی متاثر ہوکر رہ گئی ہے اور صنعتی پیداوار تقریبا ٹھپ ہوتی جا رہی ہے ۔ اب تو خود بی جے پی کے سینئر لیڈر اور سابق وزیر فینانس یشونت سنہا نے بھی ملک کی معاشی ابتری کیلئے نوٹ بندی اور جی ایس ٹی پر عمل آوری کو ذمہ دار قرار دیا ہے ۔ یشونت سنہا کے فرزند جئینت سنہا خود منسٹر آف اسٹیٹ فینانس ہیں۔ اس کے باوجود یشونت سنہا نے جو ریمارکس کئے ہیں وہ انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ وہ ملک کے ایک ذمہ دار وزیر فینانس رہ چکے ہیں۔ انہوں نے ملک کی معیشت اور اس پر اثر انداز ہونے والے عوامل کو قریب سے دیکھا ہے ۔ انہوں نے معیشت کے اتار چڑھاو سے نمٹنے کیلئے ماضی میں کئی فیصلے کئے ہیں ۔ ایسے میں اگر وہ دو عوامل کو معاشی ابتری اور گراوٹ کیلئے ذمہ دار قرار دیتے ہیں تو ان تنقیدوں کو یکسر مسترد نہیں کیا جاسکتا ۔ بی جے پی کے حلقوں کی جانب سے حالانکہ یشونت سنہا کے بیان اور تبصروں پر مایوسی کا اظہار کیا گیا ہے لیکن اس کی سچائی کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے یہ دعوی کیا جارہا ہے کہ ساری دنیا ہندوستان کی معاشی پیشرفت کا اعتراف کرتی ہے ۔ بی جے پی شائد یہ فراموش کر رہی ہے یا اس حقیقت سے عوام کو گمراہ کرنا چاہتی ہے کہ خود حکومت کے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں ہے کہ ملک کی جملہ گھریلو پیداوار توقعات سے بہت کم رہ گئی ہے اور جو شرح اب ہے وہ گذشتہ تین سال میں سب سے کم ہے ۔ ایک طرف حکومت تو معاشی انحطاط کا راست یا بالواسطہ طور پر اعتراف کرتی نظر آرہی ہے تو بی جے پی اپنی جانب سے پھر بھی عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ ایسی کوششیں کچھ وقت تک تو کارگر ثابت ہوسکتی ہیں لیکن طویل وقت میں اس کے نتیجہ میں ملک اور ملک کے عوام ہی متاثر ہونگے ۔ عوام تو اب بھی مہنگائی کی وجہ سے پریشان ہیں اور مزید پریشانیاں ان کا انتظار کر رہی ہیں۔
صورتحال یہ ہوگئی ہے کہ حکومت عوام کو راحت پہونچانے کی بجائے انہیں مسلسل نت نئے طریقوں سے نشانہ بنانے میں مصروف ہوگئی ہے ۔ عوام سے مہنگائی ختم کرنے کے وعدے پر ووٹ حاصل کرنے والی بی جے پی نے جب حکومت حاصل کرلی تو وہ غیر محسوس طریقے اختیار کرتے ہوئے عوام پر بوجھ عائد کرتی جا رہی ہے ۔ حکومت نے پٹرول قیمتوں پر یومیہ نظر ثانی کا طریقہ کار اختیار کیا ہے ۔ اس کے ذریعہ گذشتہ دو تا تین ماہ کے عرصہ میں پٹرول پر فی لیٹر 6 روپئے سے زائد کا اضافہ کردیا ہے ۔ یہ غیر محسوس طریقہ ہے جس کے ذریعہ عوام کی جیبیں کاٹی جا رہی ہیں۔ اس کے علاوہ ملک کی معیشت میں اہمیت رکھنے والا زراعت اور صنعتوں کا شعبہ بھی انتہائی ابتر حالات کا شکار ہے ۔ زرعی شعبہ کی حالت زار کی وجہ سے کسان برادری اور اس سے جڑے دوسرے افراد بھی مسائل کا شکار ہیں۔ کسان تو خود کشی کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ ریاستی حکومتیں حالانکہ کسانوں کے قرض معاف کرنے کا اعلان کر رہی ہیں لیکن اس پر عمل آوری اس انداز سے ہو رہی ہے کہ حقیقی کسان اس سے محروم ہو رہے ہیں اور سیاسی وابستگیوں کی اساس پر فائدے پہونچائے جا رہے ہیں۔ صنعتی شعبہ میں روزگار فراہم کرنے کی شرح انتہائی کم ہوگئی ہے ۔ صنعتی پیداوار بری طرح متاثر ہوتی جا رہی ہے ۔ ان حالات کا ملک کی معیشت اور عوام کی زندگیوں پر اثر ہو رہا ہے ۔ ان کے نتیجہ میں بیروزگاری کی شرح بڑھ رہی ہے ۔ اس کے باوجود بی جے پی اور اس کے ذمہ داران ترقی کے دعووں سے گریز نہیں کر رہے ہیں اور عوام کو گمراہ کیا جا رہا ہے ۔
آج شائد ہی کوئی شعبہ ایسا ہوگا جو نوٹ بندی اور پھر جی ایس ٹی پر عمل آوری کی وجہ سے مشکلات کا شکار نہ ہو۔ حکومت نے نوٹ بندی کا اعلان کرنے کے بعد کہا تھا کہ اس کے نتیجہ میں نقد معیشت ختم ہوجائیگی اور معیشت کو ڈیجیٹل بنانے میں مدد ملے گی ۔ حقیقت یہ ہے کہ آج بھی ملک میں بیشتر کاروبار اور تجارت نقدی کی اساس پر ہو رہی ہے اور ڈیجیٹل معیشت کا خواب ہنوز دلی دور است والا ہوگیا ہے ۔ معاشی حالت پر اپوزیشن یا دوسرے گوشوں سے تنقیدیں ہوتی رہی ہیں ۔ سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے خاص طور پر حکومت کے اقدامات کو نشانہ بنایا تھا لیکن حکومت نے ان کو قبول کرنے اور حالات کا جائزہ لینے کی بجائے یکسر مسترد کردیا تھا ۔ اب خود بی جے پی کے سابق وزیر فینانس نے اس پر روشنی ڈالی ہے تو حکومت کو چاہئے کہ اپنی غلطیوں کا اعتراف کرے اور جو حالات بگڑ گئے ہیں انہیں سدھارنے کے اقدامات پر توجہ دے ۔