ملک کی سلامتی کا مسئلہ

چمن پر بجلیاں منڈلا رہی ہیں
کہاں لے جاؤں شاخ آشیانہ
ملک کی سلامتی کا مسئلہ
فرانس کے ساتھ رافیل طیارہ معاہدہ پر تنقید کرنے والے صدر کانگریس راہول گاندھی کو نشانہ بناتے ہوئے بی جے پی لیڈر ارون جیٹلی نے کہا کہ انہوں نے بیرون ملک ہندوستان کے امیج کو مسخ کرنے کی کوشش کی ہے ۔ صدر فرانس میکرون سے اپنی بات چیت کا ادعا کرتے ہوئے راہول گاندھی نے جمعہ کے دن لوک سبھا میں تحریک عدم اعتماد پر مباحث کے دوران نریندر مودی حکومت کے فرانس کے ساتھ ہوئے رافیل معاہدہ کو ملک کے لیے بھاری نقصان سے دوچار ہونے والا معاہدہ قرار دیا تھا ۔ رافیل طیاروں کی خریدی میں دھاندلیوں کا الزام قوم کے سامنے ایک غور طلب معاہدہ ہے ۔ اس تعلق سے حکومت کو وضاحت کرنے کی ضرورت تھی مگر مودی حکومت نے اپوزیشن لیڈر کے الزام کو نظر انداز کرتے ہوئے جوابی تنقیدیں کرتے ہوئے مسئلہ کی سنگینی کو پوشیدہ رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ اس معاہدہ کے تعلق سے سال 2016 سے ہی کانگریس اور بی جے پی کے درمیان لفظی تکرار چلی آرہی ہے ۔ راہول گاندھی نے لوک سبھا میں وزیر دفاع نرملا سیتارامن پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ رافیل معاہدہ کے خفیہ معاملہ کے تعلق سے عوام کو جھوٹ بول رہی ہیں ۔ 23 ستمبر 2016 کو فرانس کے ساتھ 36 رافیل ایر کرافٹس کی خریدی و سربراہی کے لیے بین سرکاری معاہدہ ہوا تھا ۔ ہندوستان نے ان جٹ طیاروں کے لیے 58000 کروڑ روپئے ادا کرنے سے اتفاق کیا اور یہ طیارے ستمبر 2019 سے سربراہ کئے جانے والے ہیں لیکن معاہدہ کی نوعیت اور رقم کے مسئلہ پر کانگریس نے مودی حکومت کے موقف کا سوال اٹھایا تھا کہ اس نے قومی سلامتی سے سمجھوتہ کرتے ہوئے بڑا اسکام کیا ہے ۔ کیوں کہ مودی حکومت نے انیل امبانی کی ملکیت والی کمپنی ریلائنس ڈیفنس لمٹیڈ سے 3 اکٹوبر کو فرانس کی کمپنی سے مشترکہ ونچر کے لیے معاہدہ کیا اور ہندوستان میں دفاعی ساز و سامان کی تیاری کے لیے رضا مندی ظاہر کی ۔ کانگریس کا یہ کہنا غور طلب ہے کہ ریلائنس کے دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ 36 جٹ طیاروں کی لاگت تقریبا 30,000 کروڑ ہوتی ہے جب کہ مودی حکومت نے 58,000 کروڑ روپئے میں معاہدہ کیا ہے ۔ اس طرح ملک کی دفاعی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مودی حکومت نے غیرشفاف طریقہ سے معاملت انجام دی ہے ۔ کانگریس کی جانب سے کیے جانے والے انکشافات تحقیقات طلب ہیں ۔ مگر فرانس نے راہول گاندھی کے الزام کے فوری بعد اپنی صفائی دینے کی کوشش کی اور اس معاہدہ کو ہندوستان کے مفاد میں کہہ کر اصل مسئلہ کو ٹال دیا ۔ جب کہ الزام تو یہ ہے کہ بی جے پی حکومت نے فرانس کی کمپنی سے 36 ایر کرافٹ خریدنے کے لیے من مانی رقم ادا کردی ہے ۔ وزیر اعظم مودی کے ’’ میک ان انڈیا ‘‘ نعرہ کے درمیان اگر فرانس سے رافیل معاہدہ میں دھاندلیاں ہونے کی شکایت پیدا ہوتی ہے تو اس تعلق سے شفافیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے عوام کے سامنے سچائی لائی جانی چاہئے ۔ اگرچیکہ ہندوستانی فضائیہ کے چیف ایر مارشل بی ایس دھنوا نے اس معاہدہ اور رافیل خریداری کو حکومت ہند کی بہترین معاملت قرار دیا ہے اور طیاروں کی قیمت کو واجبی ہی کہا ہے تو اس سے ملک کی مسلح افواج میں خود اعتمادی کو ملحوظ رکھنا بھی منشا ہوسکتا ہے کیوں کہ مسلح افواج کے اندر اپنے ہی شعبہ میں دھاندلیوں کا ذکر ہوتا ہے تو اس سے حوصلے پست ہونے کا گمان زیادہ پیدا ہوگا۔ اس تنازعہ کا اصل سوال یہ ہے کہ آیا مودی حکومت نے فرانس سے کئے گئے معاہدہ میں سرکاری طریقہ کار کو ملحوظ رکھا ہے یا نہیں کیوں کہ اس ملک میں دفاعی امور کو لے کر اسکامس نئی بات نہیں ہیں ۔ ماضی میں بھی اٹلی کے تاجر اوتاویوقتروچی کے بوفورس اسکام سے دفاعی شعبہ کو دھکہ پہونچا تھا ۔ رافیل معاہدہ میں بڑا اسکام ہونے کا الزام عائد کرنے والے کانگریس قائدین نے اس معاہدہ میں چار گنا زیادہ رقم ادا کرنے کا ادعا کیا ہے تو اس کی تحقیقات ہونی چاہئے ۔ لوک سبھا میں تحریک عدم اعتماد کی بحث میں وزیراعظم مودی نے بھی بنیادی سوالوں کا جواب دینے سے گریز کیا۔ آیا حکومت نے اپوزیشن کے الزامات کے مطابق ملک کی سلامتی سے سنگین طور پر سمجھوتہ کرلیا ہے ؟ ۔۔