راستے غم کے جو دشوار ہوئے جاتے ہیں
زندگی کو یہی سامانِ سفر کافی ہے
ملک میں کرنسی کی قلت
مرکز کی نریندر مودی زیرقیادت حکومت کے بارے میں اپوزیشن پارٹیوں نے یہ درست تنقید کی ہے کہ اس حکومت نے ملک کو دیوالیہ کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے ۔ صدر کانگریس راہول گاندھی نے ملک بھر میں پائی جانے والی کرنسی کی قلت کیلئے حکومت پر الزام عائد کیا کہ مودی نے ملک کے بینکنگ نظام کو تباہ کردیا ہے۔ ان 4 برسوں میں ملک کو کنگال بنانے والی حکومت نے مفرور ہیروں کے تاجر نیرومودی جیسے تاجروں کیلئے اچھے دن لاکر عوام کیلئے رونے کے دن دیئے ہیں۔ 30ہزار کروڑ روپئے کے ساتھ فرار ہونے والے نیرو مودی کے خلاف کارروائی کرنے میں ناکام یہ حکومت عوام کو ان کے اپنے پیسوں سے محروم کررہی ہے ۔ نوٹ بندی کے بعد سے عوام کو بنکوں کے سامنے گداگروں کی طرح قطار بناکر کھڑا کردیا گیا ہے ۔ اے ٹی ایمس میںکرنسی نہیں ہے جگہ جگہ تمام اے ٹی ایمس پر ’’نوکیاش‘‘ کے بورڈ آویزاں ہیں۔ پٹرول کی قیمتوں میں دن بہ دن اضافہ کے ذریعہ حکومت اپنی ذمہ داریوں سے فرار ہوتے جارہی ہے ۔ ساری دنیا میں 2014 ء سے ہی تیل کی قیمتوں میں کمی آرہی ہے مگر ہندوستان کے اندر پٹرولیم اشیاء پر سب سے زیادہ کسٹمس ڈیوٹیز عائد کرکے اس شئے کو سب سے زیادہ مہنگا بنادیا جارہا ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی ملک کی موجودہ صورتحال کے بارے میں لب کشائی سے گریز کررہے ہیں ۔ اپوزیشن کا سامنا کرنے سے بھی پارلیمنٹ کے اندر آخر تک گریز کیا گیا ۔ اپوزیشن کے احتجاج کو بہانا بناکر حکومت نے پارلیمنٹ میں عوامی مسائل پر توجہ دینے میں ٹال مٹول سے کام لیا ۔ نریندر مودی نے عام آدمی کی جیب سے 500 اور 1000 روپئے کے نوٹ چھین کر ان نوٹوں کو نیرو مودی کے جیب میں رکھدیا ۔ وزیراعظم مودی شخصی طورپر نیرو مودی اور چوکسی کو جانتے ہیں اور انھیں ان کے پہلے نام نیرو بھائی اور مہیول بھائی سے یاد کرتے ہیں۔ ملک کے عوام کو موجودہ وزیراعظم کی چالاکیوں سے واقف ہوجانا چاہئے ۔ یہ حکومت عوام کے حق میں برے دن لاچکی ہے ۔ پورا ملک صرف 15 آدمیوں کے لئے اچھے دن لارہا ہے ماباقی عوام الناس کو ہر روز نئے مسئلہ سے دوچار ہونا پڑ رہا ہے ۔ کئی ریاستوں میں بینک اور اے ٹی ایمس میں رقومات نہ ہونے کی شکایت کی جارہی ہے ۔ جنوبی ہند کی ریاستوں کو خاص کر آر بی آئی سے خاطر خواہ نہ سہی ضرورت کے مطابق رقم جاری نہیں کی جارہی ہے جبکہ آر بی آئی کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ نوٹ بندی سے قبل بنکوں میں جتنی رقم دی جاتی تھی نوٹ بندی کے بعد اس سے دوگنی رقم بنکوں کو جاری کی جارہی ہے ۔ اس کے بعد بنک اور اے ٹی ایمس سے پیسے نکالنے کی رفتار بڑھ گئی ہے ۔ لوگ صرف پیسہ نکال رہے ہیں جمع نہیں کروایا جارہاہے ۔ جمع کرنے اور بنکوں سے پیسہ نکالنے کی شرح میں بھی فرق ہوا ہے ۔ جتنی فیصد رقم بنکوں سے نکالی جارہی ہے تو اس سے کم ہی رقم جمع ہورہی ہے ۔ آل انڈیا بینک آفیسر کنفیڈریشن کا یہ دعویٰ غور طلب ہے کہ بنکوں کو 40-30 فیصد کرنسی کی قلت کا سامنا ہے ۔ یہ صورتحال اس لئے پیدا ہوئی ہے کیوں کہ بڑی کرنسی جیسے 2000 روپئے اور 500 روپئے کے نوٹوں کی قلت پیدا ہوئی ہے۔ ایک ہفتہ سے ملک بھر میں اے ٹی ایم مشین میں پیسہ نہیں ہے ۔ وزیرفینانس ارون جیٹلی نے اگرچیکہ ملک میں کرنسی کی صورتحال کا جائزہ لیا لیکن اس اچانک پیدا ہونے والی قلت کو دور کرنے کیلئے صرف خاموش رہو اور دیکھتے جاؤ کی پالیسی پر گامزن ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آئندہ ماہ کرناٹک میں اسمبلی انتخابات ہورہے ہیں جہاں کرنسی کی طلب میں زبردست اضافہ ہوگیا ہے اور حکومت اس ریاست میں رقومات کی بڑھتی مانگ کو پورا کرنے سے قاصر نظر آرہی ہے ۔ دیگر ریاستوں آسام ، آندھراپردیش ، تلنگانہ ، مہاراشٹرا ، راجستھان ، اُترپردیش اور مدھیہ پردیش اور اُڈیشہ میں بھی کرنسی کی قلت سے عوام دوچار ہیں۔ مرکز اور آر بی آئی کو اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے فوری قدم اُٹھانے ہوں گے ۔ حکومت کا دعوی ہے کہ نوٹ بندی کے کے بعد سے ملک میں معاشی ترقی کی شرح میں اضافہ ہوا ہے تو پھر کئی ریاستوں میں کرنسی کی قلت کی وجہ کیا ہے ؟ ایک طرف پٹرولیم کی اشیاء کی قیمتوں میں دن بہ دن اضافہ ہورہاہے اور عین ممکن ہے کہ پٹرول اب 100 روپئے فی لیٹر دستیاب ہو اور دوسری طرف عوام کی جیب میں پیسہ ہی نہیں ہوگا تو روزمرہ کی زندگی مفلوج ہوجائے گی ۔