ملک میں عملًا دستوری بحران

تیری منزل سے جو آگے ہیں مقاماتِ حیات
قافلہ اب کسی منزل پر ٹھہرتا ہی نہیں
ملک میں عملًا دستوری بحران
جنوبی ہند کی ریاست کرناٹک میں اقتدار کی جنگ نے ملک میں عملا دستوری بحران کی کیفیت پیدا کردی ہے ۔ دستوری اور جمہوری نراج کی کیفیت نے ملک کے عوام کو بھی الجھن کا شکار کردیا ہے ۔ بی جے پی کی جانب سے بہرقیمت کرناٹک میں اقتدار ہتھیانے کی کوشش نے یہ صورتحال پیدا کی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ ملک ایک نراج کی کیفیت کا شکار ہوتا جا رہا ہے ۔ آئندہ سال ہونے والے عام انتخابات سے قبل یہ صورتحال نہ ملک کیلئے اچھی کہی جاسکتی ہے اور نہ یہ جمہوریت کیلئے اچھی ہے ۔ ملک کے دستور کیلئے بھی یہ حالت اچھی ہرگز نہیں کہی جاسکتی ۔ کرناٹک میں اقتدار کے حصول کیلئے جو رسہ کشی انتخابی مہم سے شروع ہوئی تھی وہ ابھی ختم نہیں ہوئی ہے ۔ ریاست میں حالانکہ انتخابی عمل مکمل ہوچکا ہے ۔ معلق اسمبلی تشکیل پائی ہے ۔ کسی بھی جماعت کو اقتدار حاصل نہیں ہوا ہے ۔ بی جے پی ہٹ دھرمی والا رویہ اختیار کئے ہوئے ہے ۔ وہ گورنر جیسے دستوری عہدہ کا بھی بیجا استعمال کرنے سے گریز نہیں کر رہی ہے ۔ جو صورتحال آج کرناٹک میں پیدا ہوئی تھی وہی صورتحال میگھالیہ ‘ منی پور اور گوا میں بھی ہوئی تھی ۔ وہاں بھی معلق اسمبلی تشکیل پائی تھی اور ان ریاستوں میں کانگریس واحد بڑی جماعت کے طور پر ابھری تھی لیکن بی جے پی نے مرکز میں اپنے اقتدار اور ریاستوں میں اپنی مرضی کے گورنر کی موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان ریاستوں میں واحد بڑی جماعت کو پیچھے ڈھکیل دیا اور اقتدار حاصل کرلیا تھا ۔ ان تینوں ہی ریاستوں میں بی جے پی نے اپنی حلیفوں کے ساتھ حکومت بنائی ہے اور تینوں ہی مقامات پر بی جے پی کا اتحاد ماقبل انتخابات کا اتحاد نہیں تھا بلکہ انتخابات کے بعد معلق اسمبلی کی صورت میں یہ اتحاد کیا گیا تھا ۔ یہی صورتحال اب کرناٹک میں پیدا ہوئی ہے تو بی جے پی واحد بڑی جماعت کا دعوی پیش کرتے ہوئے یہاں بھی اقتدار ہتھیا چکی ہے۔ کرناٹک میں بی جے پی واحد بڑی جماعت ہے لیکن اسے ایوان میں اکثریت ثابت کرنے درکار عددی طاقت حاصل نہیں ہے ۔ اس کے باوجود اس کے چیف منسٹر کو حلف دلوادیا گیا ہے یہ جانتے ہوئے بھی کہ پارٹی کو اکثریت حاصل نہیں ہے ۔
کرناٹک میں کانگریس اور جے ڈی ایس نے اتحاد کیا ہے اور اس کو درکار عددی طاقت حاصل بھی ہے ۔ اس کے باوجود اسے حکومت سازی کا موقع نہیں دیا گیا ۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ پہلے واحد بڑی جماعت کو موقع دیا جانا درست ہے ۔ اگر یہی درست ہے تو پھر میگھالیہ ‘ منی پور اور گوا میں ایسا کیوں نہیں کیا گیا ؟ ۔ اس وقت بھی مرکز میں بی جے پی کی ہی حکومت تھی اور ان ریاستوں میں بی جے پی کے نامزد گورنرس ہی تھے اور یہاں بی جے پی نے خود واحد بڑی جماعت کو پیچھے ڈھکیل کر مابعد انتخابات اتحاد کرتے ہوئے اقتدار ہتھیا لیا ہے ۔ اب اس کو مثال پیش کرتے ہوئے اپوزیشن جماعتوں نے چار ریاستوں میں تشکیل حکومت کا دعوی پیش کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اپوزیشن کے اس فیصلے نے ملک میں ایک طرح سے دستوری بحران کی کیفیت پیدا کردی ہے ۔ اقتدار کیلئے دستور کی دھجیاں اڑانے کی کوششوں کے بعد اپوزیشن نے جو فیصلہ کیا ہے اس میں وہ حق بجانب ہی ہے ۔ ایک ملک اور ایک دستور رکھتے ہوئے الگ الگ ریاستوں کیلئے الگ الگ طریقہ کار نہیں ہوسکتا ۔ ایک ریاست میں ایک جواز اور دوسری میں دوسرا جواز پیش نہیں کیا جاسکتا ۔ تاہم بی جے پی کو نہ دستور کی فکر ہے اور نہ اسے جمہوریت کو ہونے والے نقصان کی کوئی پرواہ ہے ۔ وہ کسی بھی قیمت پر کرناٹک میں بھی اقتدار حاصل کرنا چاہتی ہے اور اس کے پس پردہ اس کے یقینی طور پر کچھ پوشیدہ عزائم ہیں۔
مرکز میں حکومت رکھنے اور ملک کی 20 ریاستوں میں اپنی حلیفوں کے ساتھ حکومت رکھنے کے باوجود بی جے پی اگر دستور کی اور جمہوری اصولوں کی پرواہ کرنے کو تیار نہیں ہے تو یہ صورتحال ملک کیلئے انتہائی تشویش کی بات ہے ۔ جس طرح سے اپوزیشن کا گلا گھونٹنے کیلئے برسر اقتدار جماعت اخلاقیات وا قدار کو پامال کر رہی ہے وہ ملک کیلئے ایک منفی مثال ہے ۔ موجودہ صورتحال میں نہ صرف ملک کی تمام اپوزیشن جماعتوں کو اپنے سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے متحد ہونے کی ضرورت ہے بلکہ اس ملک کے مستقبل کی فکر کرنے والے عوام کو بھی اس معاملہ میں سوچنے کی ضرورت ہے ۔ انہیں بھی عملی طور پر ملک کے دستور اور جمہوری اصولوں کو بچانے کی جدوجہد کا حصہ بننا چاہئے ۔ یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے اور ملک کے مستقبل کو اور دستور کو بچانے کیلئے یہ ذمہ داری ہم سب کو نبھانی چاہئے ۔