ملک میں خشک سالی کا خطرہ

ہچکولے کھارہی ہیں تمنا کی کشتیاں
دریائے رنگ و بو میںہے منجدھار جابجا
ملک میں خشک سالی کا خطرہ
ملک بھر میں مانسون کا انتظار طویل ہوتا جا رہا ہے اور بارش نہیں ہو رہی ہے ۔ حالانکہ کچھ مقامات پر بارش ہوئی ہے اور تیز بھی ہوئی ہے لیکن اسے ناکافی کہا جارہا ہے اورکئی شہر اور ریاستیں ایسی ہیں جہاں بارش کا انتظار طویل ہوتا جا رہا ہے ۔ محکمہ موسمیات کی جانب سے پہلے ہی یہ پیش قیاسی کی جاتی رہی تھی کہ جاریہ سال مانسون کی بارش معمول سے کم رہے گی تاہم یہ کمی معمولی ظاہر کی گئی تھی اور یہ تاثر دیا جارہا تھا کہ اس کمی سے بحیثیت مجموعی صورتحال پر کوئی خاص فرق نہیں پڑیگا تاہم گذرتے وقت کے ساتھ اندیشے تقویت پاتے جا رہے ہیں اور صورتحال ابتر ہوتی جا رہی ہے ۔ ایک تازہ ترین سروے کے مطابق جاریہ سال اب تک کے موسم برسات میں بارش 43 فیصد تک کم ہوگئی ہے اور صورتحال ایسی ہے جس میں ملک کی کئی اہم ریاستوں میں خشک سالی کا خطرہ لاحق ہوگیا ہے ۔ محکمہ موسمیات کی جانب سے موسمی حالات میں ہونے والی تبدیلیوں کے تعلق سے زیادہ کچھ کہنے سے گریز کیا جارہا ہے لیکن اب یہ صورتحال واضح ہوتا جارہی ہے کہ بارش کی صورتحال تشویشناک ضرور ہو رہی ہے ۔ اس کے نتیجہ میں جہاں زرعی سرگرمیاں بری طرح متاثر ہو رہی ہیں وہیں خریف کی فصلیں تقریبا متاثر ہوچکی ہیں۔ آئندہ فصلیں بھی متاثر ہونے کے اندیشوں کو مسترد نہیں کیا جاسکتا ۔ زرعی سرگرمیاں اور پیداوار متاثر ہونے سے سب سے زیادہ فکرمند کسان برادری ہے جو پہلے ہی مشکل حالات سے گذر رہی تھی ۔ کئی اشیا پر اسے حکومت سے بھی اقل ترین امدادی قیمتیں نہیں مل رہی تھیں ۔بعض ریاستوں میں بینکوں سے حاصل کردہ قرضہ جات کی معافی کے مسئلہ پر الگ لیت و لعل چل رہا ہے اور کہیں حکومتیں اس کیلئے تیار ہیں تو بینکوں سے اجازت نہیں مل رہی ہے ۔ ایسی صورتحال میں اگر اس سال بارش خطرناک حد تک کم ہوتی ہے تو نہ صرف بحیثیت مجموعی ملک کی مجموعی معاشی صورتحال بلکہ کسانوں کی حالت زار بھی بہت بری طرح متاثر ہوگی اور اس سے ملک کی ترقی اور ترقی کی رفتار پر ضرور اثر ہوگا ۔ ایسا لگتا ہے کہ بارش کے تعلق سے محکمہ موسمیات کی جانب سے پہلے جاری کئے گئے اندازے غلط ثابت ہو رہے ہیں اور بارش کی کمی کا جو تناسب پہلے تھا اب وہ بہت زیادہ ہوگیا ہے ۔
حالانکہ حکومت کی جانب سے یہ تیقن دیا جارہا ہے کہ ملک میں غذائی اجناس کی کوئی کمی نہیں ہے اور ملک کے گوداموں میں ایک سال کیلئے کافی اناج موجود ہے ۔ لیکن یہ مسئلہ کا حل نہیں ہے بلکہ اس کے نتیجہ میں اوربھی مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ اناج کے وافر ذخائر کی موجودگی سے صورتحال کو زیادہ ابتر ہونے سے بچایا جاسکتا ہے لیکن زرعی سرگرمیوں اور پیداوار کے متاثر ہونے کے نتیجہ میں کسان برادری کو جو نقصانات ہونگے وہ سب سے زیادہ تشویشناک بات ہوگی اور زرعی شعبہ کی شرح ترقی متاثر ہونے کے نتیجہ میں ملک کی معیشت کو ترقی کی راہ پر ڈالنے حکومت کی کوششوں کے نتائج مثبت ہونے کی امیدیں کم ہوسکتی ہیں ۔ اس کے علاوہ قرض کے بوجھ سے جو کسان خود کشی کرینگے ان کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا جائیگا ۔ زرعی پیداوار اور سرگرمیوں پر ناکافی بارش سے جو اثر ہوگا اس کے نتیجہ میں جملہ گھریلو پیداوار کی شرح بھی متاثر ہوگی اور اس کے نتیجہ میں دوسری ترقیاتی سرگرمیوں پر لازمی طور پر اثر ہوگا ۔ یہ ایسی صورتحال ہے جو نہ ملک کے عوام کیلئے بہتر کہی جاسکتی ہے اور نہ مرکز میں قائم ہونے والی نئی حکومت کیلئے اس کو بہتر کہا جاسکتا ہے ۔ اب حکومت کو صورتحال کے مطابق ایسے کوئی منصوبے تیار کرنے چاہئیں جن کے نتیجہ میں ناکافی بارش اور خشک سالی جیسی صورتحال کے اثرات کو اور خاص طور پر منفی اثرات کو کم سے کم کرنے کی کوششوں میں مدد مل سکے اور یہ کوششیں بھی کامیاب ہوسکیں ۔
ایسے وقت میں جبکہ ملک کی معیشت انتہائی خستہ حالت میں ہے اور عوام کو مسلسل مہنگائی اور قیمتوں میں اضافہ کی وجہ سے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ناکافی بارش اور خشک سالی کی صورتحال ایک اچھی علامت نہیں کہی جاسکتی ۔ موجودہ صورتحال میں یہ اندیشے مزید تقویت پاتے جا رہے ہیں کہ زرعی پیداوار متاثر ہونے کے نتیجہ میں پھر ایک بار غذائی اجناس کی قیمتوں میں اضافہ کا رجحان بڑھ جائیگا اور حکومت خود کوئی بوجھ اٹھانے کی بجائے عوام پر ہی راست بوجھ عائد کرتے ہوئے خود کو بری الذمہ قرار دے گی اور عوام مزید بوجھ اٹھانے پر مجبور ہوجائیں گے ۔ صورتحال کو دیکھتے ہوئے حکومت کو چاہئے کہ وہ ناکافی بارش سے جو اثرات ہونے والے ہیں ان کو کم سے کم کرنے کیلئے اور کسانوں کو مسائل سے بچانے اور عام آدمی کو اضافی معاشی بوجھ اور مہینگائی سے بچانے کیلئے کچھ جامع منصوبہ سازی کرے ۔ صرف موسم پر اکتفا کرنے کی بجائے اپنے طور پر اس کے منفی اثرات کو کم کرنے کی کوشش کرنا حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہئے ۔