ملک ’’تباہی‘‘ کا شکار؟

جڑوں میں بانس کی پانی شکر کا ڈال کر ناداں
سمجھتے ہیں مٹھاس آئے گی یہ بھی نیشکر ہوگا
ملک ’’تباہی‘‘ کا شکار؟
ملک میں آر ایس ایس کا نظریہ یعنی ’’تمام کو دفن کردو ، یکطرفہ سوچ کو قائم کرو اور صرف ایک اقدار پر مبنی سسٹم کو ہی رائج کرو‘‘ کی پالیسی اس وقت تیزی سے سرگرم اس موضوع پر اپوزیشن کانگریس نے خاص کر کانگریس کے تھرواننتاپورم رکن پارلیمنٹ ششی تھرور نے کئی سوال اٹھائے ہیں تو بی جے پی تلملاہٹ کا شکار ہوگئی ہے۔ ملک میں اچھے دن کے بارے میں سوال کرتے ہوئے انہوں نے پھر ایک بار یہ واضح کیا کہ اس وقت کوئی بھی شہری اچھے دن کے بارے میں مثبت رائے نہیں رکھتا جس کسی سے بھی دریافت کیا جائے کہ نریندر مودی حکومت کے نعرے ’’اچھے دن‘‘ کے بارے میں آپ کا خیال کیا ہے تو جواب ’’نہیں‘‘ میں ملے گا۔ جب شہریوں کو ’’اچھے دن‘‘ نہیں مل رہے ہیں تو مودی حکومت اس دعویٰ کو بار بار دہراتے کیوں جارہی ہے کہ شہریوں کے لئے ’’اچھے دن‘‘ آئے ہیں’’ کیا ششی تھرور جھوٹ کہہ رہے ہیں یا عوام کی رائے غلط ہے کہ اس ملک کو اچھے دن نصیب نہیں ہوتے ہیں۔ وزیراعظم مودی نے اپوزیشن کو نشانہ بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ہے۔ یوپی میں 81 پراجیکٹس کا افتتاح کرنے کے موقع پر بھی انہوں نے ملک کو 70 سالہ تاریخ کی جانب توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن پارٹیاں ہی ملک کی موجودہ ’’علت‘‘ کے لئے ذمہ دار ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آیا ملک میں چار سال قبل تک عوام کو مذہبی خطوط پر تقسیم کرنے کی ایسی مہم چلائی گئی تھی جیسا کہ ان چار سال میں دیکھی گئی ہے۔ کیا ملک کو 70 سال کے دوران ہجومی تشدد کا سامنا کرنا پڑا تھا جیسا کہ ان چار سال میں سامنا کرنا پڑا ہے۔ ہندوستان کی ہر ریاست میں نفرت کا ماحول پیدا کرتے ہوئے ’’ہندوتوا بریگیڈ‘‘ کو کھلی چھوٹ دیئے جانے کے بعد اگر کانگریس کے لیڈر کا یہ کہنا غلط ہوگا کہ بی جے پی نے اس ملک کو ہند و پاکستان میں تبدیل کرنا شروع کیا ہے؟ یا ان کا یہ خیال بھی غلط ہوگا کہ بی جے پی دستورِ ہند کو بدل کر رکھ دے گی۔ مودی حکومت میں ہندوستان کے اندر جو کچھ تبدیلیاں دیکھی جارہی ہیں، اس پر اپوزیشن نے تنقیدیں کی ہیں۔ حکومت کو موردِ الزام ٹھہرایا ہے تو ’’بی جے پی۔ آر ایس ایس‘‘ کی پالیسی بھی عیاں ہوتی ہے تو وہ سماج میں انتشار پھیلا کر مذہبی خطوط پر پھوٹ ڈالنے کی کوشش کررہی ہے۔ بی جے پی ۔ آر ایس ایس کو اپنی کارروائیوں کو پوشیدہ رکھنے کی کیا ضرورت ہے جب اس کا نظریہ ہی ہندو راشٹر بنانے ہے تو اپوزیشن کانگریس اور اس کے لیڈروں کی نکتہ چینی پر چراغ پا ہونے کی بھی کوئی وجہ نہیں ہونی چاہئے۔ آیا مرکز کی بی جے پی حکومت کو ایک طرف اپنے سیاسی امکانات کی فکر لاحق ہوگئی ہے اور دوسری طرف و ’’ہندوتوا‘‘ کے خفیہ ایجنڈہ پر کاربند ہے۔ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے۔ یہاں کا دستور جمہوری بنیادوں پر قائم ہے۔ اگر ششی تھرور جیسے لیڈر نے مودی حکومت کی خفیہ و علانیہ سازشوں پر اُنگلی اُٹھائی ہے تو ایسا کرنا بحیثیت ایک رکن پارلیمنٹ ان کا جائز حق ہے۔ مرکز میں جب سے مودی کی حکومت آئی ہے، عدم رواداری کے واقعات میں اضافہ ہی ہورہا ہے۔ ہندوستان کے اقدار کو پامال کرنے والی حرکتیں ہورہی ہیں۔ ہندوستان جیسے ایک آزاد معاشرہ کو ’’ہندوتوا کے نظریہ کا غلام‘‘ بنانے کی مشق ہورہی ہے جبکہ ہندو اور ہندواِزم زیادہ فراخدل ہیں اور ہندوستانی عوام دیگر ابنائے وطن کے تعلق سے کوئی نفرت و عداوت پائی نہیں جاتی۔ تاریخ ہند اس بات کی شاہد ہے کہ یہ ملک خالص بھائی چارہ، محبت، اُخوت اور ایک دوسرے کے مذہبی جذبات کا احترام کرنے والوں کا مرکز ہے۔ اس حقیقت کو مسخ کرتے ہوئے اگر حکمراں طاقتیں ایسے نظریہ کو علانیہ یا خفیہ طریقہ سے عوام پر مسلط کرنے کی کوشش کرتی ہیں تو اپنے وطن سے محبت کرنے والے ہندو ہرگز برداشت نہیں کریں گے۔ ششی تھرور نے بھی اس تکلیف کا اظہار کیا ہے کہ ہندوستان کو ’’ہندو پاکستان‘‘ بنانے کی کوشش ہورہی ہے۔ اچھے دن کے نام پر لوگوں کو تاریک کھائی میں ڈھکیلا جارہا ہے۔ گزشتہ چار سال کے دوران ملک کو خطرناک رُخ دینے کی کوشش ہوئی ہے۔ اس کے خلاف آواز اُٹھاتے ہوئے اپوزیشن اپنی ذمہ داری پوری کررہی ہے تو اسے حتمی طور پر کوشش کرتے ہوئے انجام تک پہونچنا ہوگا۔