ملائم سنگھ‘ کانگریس کی سمت جھکاو

مرے ہم نشیں مرے ہم نوا مرے ساتھ چل مرے ساتھ چل
تجھے دوستی کا ہے واسطہ مرے ساتھ چل مرے ساتھ چل
ملائم سنگھ‘ کانگریس کی سمت جھکاو
اترپردیش میں انتخابات کا موسم قریب آتے آتے سیاسی قائدین کی حکمت عملیوں میں تبدیلیاں ہونے لگی ہیں۔ تمام جماعتیں اپنے فائدہ کیلئے اپنی حکمت عملی تیار کرنے میں مصروف ہیں۔ ہر کوئی چاہتا ہے کہ اسے زیادہ سے زیادہ سیاسی فائدہ حاصل ہواور اسے اقتدار کی کرسی مل جائے ۔ اتر پردیش میں گذشتہ پانچ سال سے سماجوادی پارٹی کی حکومت ہے اور ملائم سنگھ یادو کے جانشین ‘ اکھیلیش سنگھ یادو نے چیف منسٹر کی کرسی سنبھالی تھی ۔ اکھیلیش یادو کی پانچ سال کی کارکردگی مایوس کن رہی ہے ۔ وہ نہ انتظامیہ پر گرفت بنانے میں کامیاب ہوسکے اور نہ وہ لا اینڈ آرڈر کی صورتحال بہتر بناسکے ۔وہ اتر پردیش جیسی ریاست کی معاشی حالت کو بھی بہتر نہیں بناسکے ۔ وہ لا قانونیت کا خاتمہ نہیں کرسکے ۔ بحیثیت نوجوان چیف منسٹر ان سے جو امیدیں وابستہ کی جا رہی تھیں وہ ان پر کھرے نہیں اتر سکے ۔ اس کا ثبوت اس کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ خود ملائم سنگھ یادو ماضی میں دو ایک مرتبہ اکھیلیش سنگھ یادو حکومت کی کارکردگی پر تنقید کرچکے ہیں۔ بھلے ہی یہ تنقید ناصحانہ انداز میں کی گئی ہو لیکن اس سے حکومت کے کام کاج کی نوعیت کا پتہ چل جاتا ہے ۔ جس وقت ملائم سنگھ نے اکھیلیش سنگھ یادو کو چیف منسٹر کے عہدہ پر فائز کیا تھا اس وقت ان کے سامنے خود ملک کی وزار ت عظمی کا خواب تھا ۔ لوک سبھا انتخابات میں جب یہ خواب چکنا چور ہوگیا اور ان کی پارٹی کو ہزیمت برداشت کرنی پڑی تو شائد اس وقت ملائم سنگھ یادو کو اپنی سیاسی غلطی کا اندازہ ہوا ہو۔ اب جبکہ ریاست میںا نتخابات ہونے والے ہیں ایسے میں ملائم سنگھ یادو کو اپنی پارٹی کی ساکھ بچانے کی فکر لاحق ہوئی ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ پارٹی کا اقتدار برقرار رہے ۔ آثار و قرائن تو یہی ہیں کہ پارٹی شائد اپنا اقتدار برقرار رکھنے میں کامیاب نہیں ہوگی ۔ شائد یہی وجہ ہے کہ ملائم سنگھ یادو کے لب و لہجہ اور انداز میں تبدیلی آئی ہے اور وہ انتخابات کے دوران یا اس کے بعد اتحاد کرنے کے امکانات پر ابھی سے تیار ہوگئے ہیں۔ شائد یہی وجہ ہے کہ وہ کانگریس پارٹی سے اتحاد کے امکانات پر ابھی سے تبصرے کرنے لگے ہیں۔ چند ماہ قبل تک ملائم سنگھ یادو کا انداز یہ نہیں تھا اور وہ امکانی سیاسی اتحاد کے تعلق سے کوئی تبصرہ کرنے کو تیار نہیں تھے ۔
ملائم سنگھ یادو اب کانگریس کے نائب صدر راہول گاندھی کی ستائش کرنے پر اتر آئے ہیں اور واضح طور پر کہہ رہے ہیں کہ کانگریس اور سماجوادی پارٹی دوست ہوسکتے ہیں۔ یہ دونوں جماعتیں ویسے بھی ماضی میں ایک دوسرے کا ساتھ دے چکی ہیں۔ یو پی اے دور حکومت میں جب امریکہ سے سیول نیوکلئیر معاہدہ ہوا اور منموہن سنگھ حکومت کو اقتدار بچانے کا مسئلہ درپیش ہوا تھا اس وقت امر سنگھ کی کوششوں سے سماجوادی پارٹی نے ہی حکومت کو بچانے میں اہم رول ادا کیا تھا ۔ اب وہ اتر پردیش میں اپنی پارٹی کی ساکھ بچانے کیلئے کانگریس کی تائید حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ کانگریس نے اتر پردیش انتخابات کیلئے بڑی تیاریاں شروع کر رکھی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ایک جامع منصوبہ کے ساتھ پارٹی انتخابی میدان میں اتری ہے ۔ اس نے وزار ت اعلی امیدوار کا اعلان کردیا ہے ۔ پارٹی کے نئے ریاستی صدر کا تقرر عمل میں لایا ہے ۔ عوام کو پارٹی سے دوبارہ قریب کرنے کیلئے حکمت عملی تیار کی گئی ہے ۔ راہول گاندھی خود اتر پردیش میں بڑی یاترا کر رہے ہیں۔ عوام میں گھل مل کر انہیں دوبارہ پارٹی کی صفوں میں واپس لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایسے میں شائد ملائم سنگھ یادو کو کانگریس ہی کا سہارا نظر آ رہا ہے کہ وہ کانگریس کے ساتھ قبل از انتخابات نشستوں کی تقسیم پر معاہدہ کرسکتے ہیں۔ وہ انتخابات کے بعد تشکیل حکومت کیلئے کانگریس کی تائید حاصل کرسکتے ہیں۔ اس کا وہ برملا اظہار بھی کر رہے ہیں اور پارٹی کی تائید حاصل کرنے کی کوشش میں وہ پارٹی کے نائب صدر راہول گاندھی کی ستائش تک کرنے لگے ہیں۔
کانگریس نے جو منصوبہ تیار کیا ہے اور وہ جو کوشش کر رہی ہے وہ اس کے وجود اور بقا کا سوال ہے ۔ اس کے کیا نتائج برآمد ہوسکتے ہیں اس کا اندازہ ابھی سے کرنا آسان نہیں ہوگا تاہم جہاں تک ملائم سنگھ یادو کا سوال ہے یہ بات واضح ہے کہ وہ سیاسی موقع پرست رہے ہیں۔ جس طرح بی ایس پی کے بانی آنجہانی کانشی رام کہا کرتے تھے کہ سیاست ابن الوقتوں کا کھیل ہے اسی طرح ملائم سنگھ یادو بھی موقع پرستی کی مثالیں قائم کرتے جا رہے ہیں۔ وہ اپنے فائدے کیلئے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں اور اخلاق و معیار کی انہیں کوئی پرواہ نہیں ہوتی ۔ صدر جمہوریہ کے انتخاب کیلئے مرحوم عبدالکلام کی دوبارہ نامزدگی کا مسئلہ ہو یا پھر بہار انتخابات میں عظیم اتحاد کی تشکیل ہو دونوںہی موقعوں پر انہوں نے اپنے ساتھی جماعتوں سے دھوکہ اور فریب کیا ہے ۔ ان مثالوں کو سامنے رکھتے ہوئے کانگریس کو ان سے ہوشیار اور چوکنا رہنے کی ضرورت ہے ۔