ملائشیا کی عدالت میں بچوں کو حلقہ بگوش اسلام کرنے باپ کا فیصلہ کالعدم

کوالالمپور ۔ 29 جنوری (سیاست ڈاٹ کام) ملائشیا کی ایک عدالت عالیہ نے اپنے ایک تاریخی فیصلہ میں کہا اگر کسی بچے کا مذہب تبدیل کیا جارہا ہے تو اس صورت میں اس بچے کے والدین (ماں اور باپ دونوں) کی رضامندی حاصل کرنا ضروری ہے جو دراصل ایک ہندو خاتون کے حق میں دیا گیا فیصلہ ہے جس کے شوہر نے اپنی بیوی کو لاعلم رکھتے ہوئے اپنے تینوں بچوں کو حلقہ بگوش اسلام کردیا۔ اس طرح اب عدالت نے جو فیصلہ دیا ہے اس سے ایم اندرا گاندھی اور اس کے سابق شوہر جس نے مذہب اسلام قبول کرنے کے بعد اپنے تینوں بچوں کو بھی 2009ء میں مسلمان بنادیا تھا تاہم اس تبدیلی مذہب سے اس نے اپنی سابقہ بیوی کو لاعلم رکھا تھا، میاں بیوی کے درمیان جاری قانونی رسہ کشی کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ سابق شوہر نے اپنی ایک بیٹی کو بھی علحدگی کے وقت اپنی بیوی سے چھین لیا تھا جو اس وقت صرف 11 ماہ کی تھی۔ خاتون نے بچوں کے تبدیلیٔ مذہب اور انہیں شوہر کی جانب سے اپنی تحویل میں لینے کے فیصلہ کو ملائشیا کے دوہری عدالت نظام کے تحت یہ کہہ کر چیلنج کیا تھا کہ سیول عدالتوں کو مذہب اسلام اختیار کرنے کی اجازت دینے کا کوئی اختیار نہیں ہے جس کے بعد اس فیصلہ کو ملک کی عدالت عالیہ سے رجوع کیا گیا تھا جس کے بعد وفاقی عدالت کے پانچ رکنی پیانل بچوں کے تبدیلی مذہب کو غیرقانونی قرار دیا تھا کیونکہ یہ کام بچوں کی ماں کی رضامندی حاصل کئے بغیر کیا گیا تھا۔ اس موقع پر اندرا گاندھی کے وکیل نے عدالتی فیصلہ کی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ یقینی طور پر سارے ملائشیائی شہریوں کی جیت کے مترادف ہے۔