مقدس اوراق اور اُن کا ادب

محمد غیاث الدین کورٹلوی

علم ایک ایسی قیمتی اور لازوال نعمت ہے، جو کبھی ختم نہیں ہوتی۔ علم معرفت الہٰی کا ذریعہ ہے۔ علم انبیاء کرام علیہم السلام کی وراثت ہے۔ علم نور الہٰی ہے، جس کے ذریعہ انسان پر رشد و ضلال کی حقیقتیں واضح ہوتی ہیں، اس لئے علم دین کی عظمت و محبت ایک سچے مسلمان کی فطرت ہوتی ہے۔ علم کا ادب یہ ہے کہ اس سے متعلق تمام چیزوں کی توقیر کی جائے اور ان کا ادب کیا جائے۔ اسی وجہ سے علماء کرام کا ادب بجالانے کا حکم ہے، کیونکہ انھوں نے وراثت انبیاء یعنی علم دین کو اپنے سینوں میں محفوظ کرلیا ہے۔ اسی طرح ان اوراق اور کتابوں کے ادب کا بھی حکم ہے، جس میں علمی باتیں یا اسمائے مقدسہ لکھے ہوئے ہوں۔
علم کا اصل سرچشمہ قرآن مقدس ہے، اسی سے علم کی کرنیں پھوٹ پھوٹ کر نکلتی ہیں، لہذا قرآن پاک جس ورق پر لکھا ہوا ہوا، اس کا ادب نہایت ضروری ہے۔ قرآن پاک چوں کہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، رب دوجہاں کا آخری فرمان ہے، اس کے ماننے والے مسلمان ہیں اور اس پر عمل کرنے میں راحت کا سامان ہے، اسی لئے قرآن پاک کو بے وضوء چھونے سے منع کیا گیا ہے اور اگر حالت جنب میں ہو تو زبانی تلاوت سے بھی روک دیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد باری ہے: ’’نہیں چھوتے اس (قرآن) کو مگر پاک لوگ‘‘۔ (سورۂ واقعہ)
علم کا دوسرا ماخذ احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ چوں کہ یہ افعال و اقوال رسول ہیں، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان فیض ترجمان سے نکلی ہوئی باتیں ہیں، اس لئے کتب احادیث کا ادب و احترام بھی نہایت ضروری اور لازم ہے۔ علاوہ ازیں جو کتابیں قرآن و سنت کی تشریح میں لکھی گئی ہوں یا جس میں اللہ تعالیٰ اور رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے اسمائے مقدسہ ہوں، ایسی تمام کتابوں اور اوراق کا ادب و احترام ہر مسلمان پر ضروری ہے۔
حضرت بشر حافی رحمۃ اللہ علیہ ایک بہت بڑے بزرگ گزرے ہیں۔ آپ اگرچہ عالم نہیں تھے، مگر آپ کی خدمت میں آفتاب علم حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ حاضری دیتے تھے۔ حضرت امام احمد بن حنبل سے کسی نے دریافت کیا کہ ’’آپ اتنے بڑے عالم اور امام وقت ہونے کے باوجود ان (حضرت بشر حافی) کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں؟‘‘۔ حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: ’’میں عالم کتاب اللہ ہوں اور وہ (حضرت بشر حافی) عالم باللہ ہیں‘‘۔
حضرت بشر حافی رحمۃ اللہ علیہ کے اس مقام و مرتبہ کا پس منظر یہ ہے کہ آپ ایک روز ننگے پیر شراب کے نشے میں چور کہیں جا رہے تھے کہ راستے میں ایک ورق پر نظر پڑی، جس پر اللہ تعالیٰ کا نام لکھا ہوا تھا۔ یہ دیکھ کر آپ تڑپ اُٹھے کہ ’’جس ورق پر میرے اللہ کا اسم مبارک ہے، وہ زمین پر پڑا ہوا ہے‘‘۔ آپ نے فوراً اُس کاغذ کو اُٹھایا، بوسہ دیا اور اُسے اونچی جگہ پر رکھ دیا۔ اسم مبارک کے ادب کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو شرابیوں کی صف سے نکال کر اپنے ولیوں کی صف میں پہنچا دیا اور پھر وہ مقام عطا ہوا کہ حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ جیسی شخصیت آپ کی صحبت بافیض میں بیٹھنے کو باعثِ سعادت تصور کرتی تھی۔
فی زمانہ ہر چیز انحطاط پزیر ہے، ہمارے مذہبی جذبات بالکل فنا ہو چکے ہیں، ہمارے دِلوں سے کتابوں کی عظمت اور مقدس اوراق کا ادب بالکل نکل چکا ہے۔ سب سے اہم چیز جس کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے، وہ یہ ہے کہ پہلے دینی علوم کو پھیلانے کے تحریری ذرائع صرف کتابیں اور خطوط تھے، لوگوں کے اندر دین کا لحاظ و ادب موجود تھا اور وہ حضرات ان کتب و خطوط کا احترام کرتے تھے، مگر اب دور جدید کی ترقیوں نے اشاعت علوم دین کے لئے کئی راستے پیدا کردیئے ہیں، جن میں سب سے اہم کردار الکٹرانک، سوشل اور پریس میڈیا کا ہے۔ پریس میڈیا کے ذریعہ ہر جمعہ کو مختلف اخبارات میں مذہبی مضامین شائع ہوتے ہیں، ہر روز آیات قرآنی اور احادیث کے ترجمے شائع ہوتے رہتے ہیں اور کئی لوگوں کو اس سے نفع بھی ہوتا ہے۔ مگر سب سے اہم بات یہ ہے کہ پڑھنے والے ان مقدس اوراق کا ادب نہیں کرتے۔ بہت سے لوگ ان اخبارات کو ردی میں ڈال دیتے ہیں اور بہت سے طاق کی زینت بناتے ہیں، حالانکہ ان مقدس اوراق میں (جو اکثر مذہبی ایڈیشن کے نام سے شائع ہوتے ہیں) قرآنی آیات و احادیث کے ترجمے اور مذہبی مضامین شامل ہوتے ہیں، اس کے باوجود بہت کم لوگ ان مقدس صفحات کا احترام کرتے ہیں۔ راقم السطور کو سخت تکلیف اس وقت ہوئی، جب اس نے اسی طرح کا ایک مقدس صفحہ ایک نالی اور گندگی میں پڑا ہوا دیکھا۔ خدارا ایسی بے ادبیوں سے بچیں، کیونکہ اس قسم کی بے ادبی اللہ تعالیٰ کے غضب کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ شاید دنیا میں آج ہماری ذلت و رسوائی کی ایک وجہ قرآن و حدیث، مذہبی کتابوں اور اوراق مقدسہ کی بے ادبی بھی ہوسکتی ہے۔
اس طرح کی بے ادبی کو روکنے کا سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ ہر روز ہم جو بھی اخبار کا مطالعہ کریں، اس میں جہاں کہیں آیات و احادیث یا اس کے ترجمے، اللہ تعالیٰ، اس کے رسولﷺ، صحابۂ کرام  اور بزرگان دین کے اسماء ہوں، ان کو الگ کرلیں اور بالخصوص جمعہ کا مذہبی ایڈیشن الگ رکھیں۔ پھر جب فرصت ملے تو ان صفحات اور تراشوں کو کسی ویران جگہ پر، جہاں پاؤں نہ پڑتے ہوں، ادب کے ساتھ دفنادیں اور اس نیک عمل کا مشورہ اپنے عزیز و اقارب کو بھی دیں۔ ہماری اور آپ کی یہ کوشش رفتہ رفتہ آگے بڑھے گی اور ہم لوگ اس گناہ عظیم سے بچ جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہماری اس کاوش کو قبول فرماکر ثواب دارین کا ذریعہ بنائے۔ (آمین)