مقامی جماعتآخر مجھ سے اتنی خوفزدہ کیوں ہے ؟ نامپلی حلقہ کے تلگو دیشم امیدوار فیروز خاں کا سوال

حیدرآباد ۔ 24 ۔ اپریل : ( سیاست نیوز ) : فیروز خان اگرچہ عین الیکشن کے موقع پر تلگو دیشم میں شمولیت اختیار کی لیکن حلقہ اسمبلی نامپلی میں وہ گذشتہ 6 تا 7 برسوں سے مسلسل سرگرم عمل ہیں ۔ یہ خدمت کا جذبہ نہیں تو اور کیا ہے ؟ آج پورے حیدرآباد میں میڈیا نے جن حلقوں پر اپنی توجہ مرکوز کر رکھی ہے اس میں نامپلی ایک اہم حلقہ ہے ۔ اس حلقہ کے تلگو دیشم امیدوار سے ایک خاص ملاقات کی تفصیلات یہاں قارئین کے نظر کی جارہی ہیں فیروز خاں کا مقدمہ عوامی عدالت میں ہے ، انہیں ووٹ کے ذریعہ اپنا فیصلہ دینا ہے ۔ سب سے پہلے تو فیروز خاں نے یہ بات واضح کی کہ مقامی جماعت کی مسلمانوں سے ہمدردی قوم کے ساتھ صرف دھوکہ ہے ۔ تلنگانہ کے علاقہ میں آج ہر سیاسی جماعت مسلمانوں کی سیاسی اہمیت کو تسلیم کررہی ہے لیکن صرف اور صرف یہ جماعت ساری سیاسی جماعتوں کو بلیک میل کرتے ہوئے اس بات کے لیے مجبور کررہی ہے کہ وہ کسی مسلمان کو نہ تو ایم ایل اے کے لیے ٹکٹ دے اور نہ ہی ایم پی کے لیے ۔ انہوں نے سوال کیا کہ جماعت نے تلنگانہ میں صرف 20 امیدواروں کو ہی ایم ایل اے کا ٹکٹ کیوں دیا ؟ کیا کوئی 20 ایم ایل اے کے ساتھ نئی ریاست میں حکومت سازی کرسکتا ہے ؟ پھر یہ عوام کو بے وقوف بنانے کی باتیں یہ نعرے کیوں لگائے جارہے ہیں کہ تلنگانہ میں ہم بادشاہ گر بننے جارہے ہیں ، جماعت تو دراصل سوداگر کا رول ادا کررہی ہے ۔ جماعت تو 50 برسوں میں صرف ایک انجنیئرنگ کالج بناکر تماشہ کررہی ہے اور وہ کالج بھی ڈاکٹر وزارت رسول خاں کی مساعی کا نتیجہ ہے ۔ انہوں نے بعد میں انفرادی طور پر اپنے جیب سے ایک دو نہیں بلکہ 14 انجینئرنگ کالج کھول دئیے تو عوام کی آنکھیں بھی کھل گئیں ، انہیں پتہ چل گیا کہ انجینئرنگ کالج کھولنا اہم نہیں بلکہ ملت کو اصل ٹیالینٹ کو بلا کسی ڈونیشن کے اعلیٰ تعلیم دینا اصل خدمت ہے ۔ وزارت رسول خاں مرحوم نے تو میڈیکل کالج قائم کی وہ بھی ایک نہیں بلکہ 2 میڈیکل کالج کھول کر ثابت کیا کہ عزم ہو تو فرد واحد بھی بڑا کام کرسکتا ہے ۔ اور جماعت صرف تماشہ کرتی ہے اور مسلمانوں کو سیاسی طور پر طاقت ور بننے سے روکنے کے لیے جماعت ہی ذمہ دار ہے ۔ تلگو دیشم جماعت میں اپنی شمولیت کی فیروز خاں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ مقامی جماعت نے ہر سیاسی جماعت پر دباؤ ڈال کر ان کے ٹکٹ کو روکنے کی کوشش کی ۔ جماعت کے دباؤ کا اگر کسی نے سامنا کیا تو وہ تلگو دیشم قائد چندرا بابو نائیڈو تھے انہوں نے اس یقین کا اظہار کیا کہ مسلمانوں کو اگر جماعت کے بچھائے ہوئے سیاسی استحصالی جال سے باہر نکلنا ہے تو اس کے لیے انہیں مخلص قیادت کے ساتھ چلنا ہوگا ۔ بی جے پی کے ساتھ اتحاد کو انہوں نے بالکلیہ ٹی ڈی پی کی سیاسی بقاء کے لیے اٹھایا گیا قدم قرار دیا ۔ فیروز خاں کا کہنا تھا کہ آخر اس جماعت کو کس نے دلالی کا حق دیا ؟
اب نامپلی کے عوام جماعت کے الزامات سننے کے موڈ میں نہیں ہیں بلکہ جواب طلب کرنا چاہتے ہیں کیا جماعت حلقے کی ترقیات سے جڑے عوامی سوالات کا جواب دے سکتی ہے ؟ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ آخر اس نے نامپلی حلقہ کے ایم ایل اے کو ٹکٹ سے کیوں محروم کیا ؟ کیا ان کی کارکردگی تشفی بخش نہیں تھی ؟ یا کیا بات تھی کہ انہیں ٹکٹ نہیں ملا عوام کو یہ جاننے کا حق حاصل ہے ۔ گذشتہ پانچ برسوں میں خود جماعت کا دعویٰ ہے کہ سب سے زیادہ ترقیاتی کام چندرائن گٹہ میں ہوئے تو حلقہ اسمبلی نامپلی کب ترقی کرے گا ؟
یہاں آج بھی پینے کا پانی سے لے کر پاک صاف سڑکوں کا مسئلہ ہے ۔ میں اگرچہ ایم ایل اے نہیں بنا لیکن میں نے عوام کی خدمت کرنے کے لیے پانچ سال انتظار نہیں کیا اور اپنے داتی صرفہ سے سارے علاقے کے غریبوں کو ضرورت مندوں کو مفت پانی سربراہ کررہا ہوں ۔ انہوں نے کہا جماعت نے نامپلی میں کونسے تعلیمی ادارے کھولے ؟ اس کا جواب دے ، تعلیمی ادارہ کھولنا تو دور کئی ایک سرکاری امدادی اسکول اس حلقہ میں دم توڑ رہے ہیں ۔
جماعت نے ان اداروں میں ٹیچرس کے تقررات کو یقینی بنانے کے لیے پچھلے 20 برسوں میں کچھ نہیں کیا ، جماعت نے نامپلی حلقہ میں کتنے سرکاری بینکوں کی برانچس قائم کروائی ، سرکاری بینکس تو دور خود اس کے بینک سے علاقے کے کتنے غریبوں کو قرض دئیے گئے ؟ کیا یہ جماعت بتا سکتی ہے ؟ نامپلی علاقے کے سرکاری دواخانے خراب ہوتے جارہے ہیں کوئی سرکاری دواخانہ 24 گھنٹے طبی خدمات نہیں فراہم کررہا ہے ۔
نامپلی علاقے میں لڑکیوں کے بڑے بڑے گورنمنٹ ڈگری کالجس ہیں ، ان کالجس کی لڑکیوں کو ٹہرنے کے لیے بس اسٹاپ تک نہیں ہے ۔ ملے پلی کے علاقے میں 6 تا 8 پلے گراونڈ ہیں ان گراونڈس کی نہ تو صحیح نگہداشت ہوتی ہے اور نہ ہی علاقے کے نوجوانوں کو کھیلنے کے لیے سہی سہولت ہے ۔
مقامی جماعت ان گراونڈس میں صرف اپنے جلسے کرتی ہے اور جذباتی تقاریر کر کے ووٹ بٹورتی ہے اور پھر پانچ برسوں تک غائب ہوجاتی ہے ۔ جماعت کے قائدین اپنی تقریروں میں نریندر مودی سے مقابلہ کی بات کرتے ہیں ، تو سوال یہ ہے کہ جماعت کا ایم پی تو ایک ہی ہے پھر یہ کیسے نریندر مودی کو روکیں گے ۔ دراصل یہ جماعت کانگریس کی بی ٹیم کی حیثیت سے کام کررہی ہے انہوں نے کہا کہ جماعت نے چارمینار کی مندر کی توسیع کے مسئلے پر کانگریس سے تائید واپس لے لی تھی اب کس طرح وہ کانگریس کی تائید کررہی ہے ۔ چارمینار کی مندر تو جوں کا توں ہے ۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ قیادت گھٹیا سیاست کررہی ہے اور لوگوں کو الو بنا رہی ہے ۔ لیکن نامپلی کا ووٹر جاگ گیا اور اسے یہ معلوم ہوگیا ہے کہ جماعت کے لیٹر پیاڈ کی نمائندگی سے کچھ ہونے والا نہیں ہے نمائندگی کرنا ہے تو یا تو اپنی حکومت بنانا یا اصل اپوزیشن کا موقف حاصل کرنا ہوگا اور یہ دونوں کام جماعت سے نہیں ہونے والے ہیں ۔
یہ لوگ اپنی ذاتی مفاد کے لیے جذباتی تقاریر اور کھوکھلے نعرے کے سہارے لوگوں کو بے وقوف بنا کر ووٹ حاصل کرلیتے ہیں ۔ مگر اب عوام الزام کے بل پر نہیں بلکہ کام کے بل پر ووٹ دے گی اور اللہ نے چاہا تو حلقے کے عوام کو مایوس نہیں کروں گا ۔
انہوں نے کہا کہ جماعت کے قائدین نے نرمل اور نظام آباد میں ملک کے ہندوؤں کے خلاف اشتعال انگیز تقاریر کی اور ایک نفرت کا ماحول تیار کیا اور اب الیکشن میں سیاسی مفادات کے تحت کچھ اور ہی حکمت عملی اختیار کررہی ہے ۔ فیروز خاں نے کہا کہ میں حلقہ اسمبلی نامپلی کا ہی رہنے والا ہوں اور دو ایک نہیں بلکہ گذشتہ 5 برسوں سے علاقے کے ہر گلی اور ہر محلے اور ہر موڑ اور عوام کے درمیان گیا ہوں اور ان کے مسائل سماعت کی ہے ۔ میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ ہندوستانی مسلمان ہوں اور ہندوستانیوں کے ساتھ مل جل کر رہنے میں ہی مسلمانوں کی ترقی کو دیکھتا ہوں ۔ جذباتی تقاریر نہیں کرتا ہوں اور مذہب کی دہائی نہیں دیتا ہوں اور ایک سیاسی جہد کار کے طور پر اور اپنے کام کی بنیاد پر ووٹ مان