مولانا غلام رسول سعیدی
ایک دن صحابۂ کرام باتیں کر رہے تھے کہ آدم صفی اللہ ہیں، ابراہیم خلیل اللہ ہیں، موسیٰ کلیم اللہ اور عیسیٰ روح اللہ ہیں۔ اسی دوران حضور نبی کریم رؤف و رحیم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے اور فرمایا ’’بے شک آدم صفی اللہ ہیں، ابراہیم خلیل اللہ، موسیٰ کلیم اللہ اور عیسیٰ روح اللہ ہیں، مگر یاد رکھو! میں حبیب اللہ ہوں اور میں فخر نہیں کرتا‘‘۔ ایک اور موقع پر فرمایا ’’میں تمام رسولوں کا قائد ہوں اور مجھے اس پر فخر نہیں‘‘ یعنی میرے لئے یہ فخر کی بات نہیں کہ مجھے ان کی قیادت مل گئی۔ فخر تو رسولوں کو کرنا چاہئے، جنھیں مجھ جیسا قائد مل گیا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام فکر آخرت سے دعاء کرتے ہیں کہ ’’اے خداوندا! روز حشر ہمیں شرمندہ نہ کرنا‘‘ اور جس مرتبہ کے لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو وہی مقام بنا مانگے عطا کیا گیا اور فرمایا ’’حشر کے دن اللہ تعالی نہ اپنے نبی کو شرمندہ کرے گا اور نہ ان کے ساتھ ایمان لانے والوں کو‘‘۔ شرمندہ نہ کرنا تو کجا، بلکہ اللہ تعالی نے وعدہ فرمایا ’’سرِمحشر آپﷺ سرخرو ہوں گے اور لواء الحمد آپ کے ہاتھ میں ہوگا‘‘۔ یعنی اللہ تعالی کی نوازشوں اور عنایتوں کی موسلا دھار بارش ہوگی اور وہ اس وقت تک بخشتا اور نوازتا رہے گا، جب تک آپﷺ راضی نہیں ہوں گے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے تمنا کی ’’اے رب! مجھے اپنی ذات دکھا، تاکہ میں اس کا نظارہ کروں‘‘۔ رب العالمین نے فرمایا ’’تم نہیں دیکھ سکتے‘‘ اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا ’’اَلَمْ تَرَ اِلٰی رَبِّکَ‘‘ کیا آپ نے اپنے رب کو نہیں دیکھا۔ اللہ عز و جل کے جلال و جبروت کا کیا اندازہ ہو سکتا ہے، اس کا کلام اگر کسی پہاڑ پر اترے تو وہ ریزہ ریزہ ہو جائے۔ اس کی صفت کی تجلی اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسے نبی پر ہو تو ہوش جاتے رہیں، پہاڑوں میں یہ طاقت نہیں کہ اس کے کلام کا بار اٹھا سکیں، تو ان کا حوصلہ کیسا ہوگا، جن کے سینہ پر قرآن کی ایک دو نہیں چھ ہزار سے زائد آیتیں اتریں۔ مخلوقات کے عالم میں کسی کو اسے دیکھنے کی ہمت نہیں تو ان آنکھوں کا کیا کہنا، جنھوں نے اپنے رب کو اس شان سے دیکھا کہ دکھانے والے کو بھی کہنا پڑا ’’مازاغ البصر وماطغٰی‘‘۔
عارفوں کے دو گروہ ہوتے ہیں، ایک وہ ہیں جن کی نظر پہلے مصنوع پر پڑتی ہے اور پھر اس کے بعد صانع تک پہنچتے ہیں۔ دوسرے وہ ہیں جن کی نظر ابتدائً صانع پر ہوتی ہے، اس کے بعد مصنوع کو دیکھتے ہیں۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا ’’اللہ تعالی نے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آسمان اور زمین کی تمام حقیقتیں دکھائیں‘‘ (سورۃ الانعام۔۷۵) اس کے بعد وہ تجلیات الہیہ تک پہنچے۔ یہ تھا مقام ابراہیم علیہ السلام اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام یہ ہے کہ ایک موقع پر آپﷺ نے فرمایا: ’’میں نے اپنے رب کو حسین صورت میں دیکھا۔ اس نے پوچھا: ملاء اعلی کس بات میں نزاع کرتے ہیں؟۔ میں نے عرض کیا: تو ہی خوب جانتا ہے۔ پھر اللہ تعالی نے اپنا دست قدرت میرے شانوں کے درمیان رکھا، جس کی ٹھنڈک میں نے اپنے سینے میں محسوس کی، پھر میں نے تمام آسمانوں اور زمینوں کو دیکھ لیا‘‘۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پہلے زمین و آسمان کو دیکھا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے خدا کو دیکھا اور پھر زمین و آسمان کو دیکھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’میرے ساتھ میرا رب ہے‘‘ یعنی پہلے اپنا ذکر کیا، پھر خدا کا اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اللہ ہمارے ساتھ ہے‘‘ یعنی پہلے خدا کا ذکر فرمایا اور پھر اپنا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام ملکہ سبا بلقیس کی طرف خط لکھواتے ہیں: ’’انہ من سلیمان وانہ بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم‘‘ یعنی پہلے اپنا اور پھر خدا کا ذکر کرتے ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بادشاہ روم ہرقل کی طرف خط لکھوایا تو لکھا: ’’بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم من محمد الی ھرقل عظیم الروم‘‘ یعنی پہلے اللہ کا نام لکھوایا اور پھر اپنا۔ ان شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ پہلے مخلوق کو دیکھنا اور پھر مخلوق سے خالق کی طرف متوجہ ہونا، یہ حضرت ابراہیم، حضرت موسی اور حضرت سلیمان علیہم السلام کا مقام ہے اور سب چیزوں سے پہلے اپنے رب کو دیکھنا اور پھر کسی اور کی طرف التفات کرنا یہ مقام محمدی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔