مغرور غضب الٰہی سے بے فکر ہو جاتا ہے

سید زبیر ہاشمی ، معلّم جامعہ نظامیہ
غرور کے دو معنیٰ ملتے ہیں، ایک دھوکہ، دوسرے بیہودہ بات۔ شیطان کو قرآن میں مغرور کہا گیا ہے، یعنی دھوکہ باز، دھوکہ اس کا مقدر ہے۔ خود بھی فریب خوردہ ہی اور دوسروں کو بھی مبتلائے فریب رکھتا ہے۔ اس کو انسان پر اپنی برتری کا دھوکہ ہو گیا۔ حضرت آدم خلافت ارضی تو فرشتوں کی سمجھ میں بھی نہیں آرہی تھی، لیکن جیسے ہی اسماء الاشیاء پوچھ لئے گئے، فوراً بات سمجھ میں آگئی۔ ’’سبحانک لاعلم لنا الا ماعلمتنا{سورۂ بقرہ}‘‘ کہہ کر بارگاہ خداوندی میں معذرت خواہ ہو گئے اور جب سیدنا آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا تو فوراً سجدہ میں گرپڑے، لیکن ابلیس نے انکار کردیا۔ وجہ انکار تکبر اور انانیت تھی، برتری کا دھوکہ تھا، حالانکہ بڑائی نہ مٹی میں ہے نہ آگ میں۔ ’’انا خیرمنہ‘‘ کے تین لفظوں نے اس کی آگ پلید کردی، جس پر وہ فخر کر رہا تھا۔ آگ کی برتری کا تو اس نے ایک نامعقول بہانہ تراشا تھا، جس میں نہ کوئی گہرائی ہے اور نہ گیرائی، بس ایک سطحی سی نامعقول بات ہے۔ اصل بات یہ تھی کہ ابلیس ایک طویل عرصہ سے عالم ملکوت میں فرشتوں کے ساتھ رہ رہا تھا، جہاں وہ کچھ اسرار و رموز سے بھی آگاہ ہو گیا تھا۔

بس اسی رازدانی کی وجہ سے وہ غرور علمی میں مبتلاء ہو گیا۔ وہ دیکھ رہا تھا کہ دست قدرت نے مٹی کا ایک پتلا بنایا ہے، پھر اس کی صورت گری کی اور اس کے اعضاء و قوتوں میں تناسب قائم کیا ہے۔ پھر اس کے اندر اپنی روح سے کچھ پھونک کر اس کو وجود بخشا ہے اور اس کو اپنا خلیفہ بناکر مجھ سے سجدہ کرایا جا رہا ہے۔ حالانکہ میں اس عالم ملکوت میں ایک طویل عرصہ سے رہ رہا ہوں، یہاں کے اسرار و رموز سے واقف ہوں، یہاں کا ایک وسیع علم رکھتا ہوں۔ بھلا میں اس کو سجدہ کیوں کرو؟ یہ تو مجھ سے کئی گنا کمتر ہے۔ اصل گھمنڈ اس کو اسرار و رموز سے واقف ہونے کا تھا، علم و دانش کا تھا۔ بس اسی غرور علمی نے اسے انکار پر جری کردیا۔ یہ گمراہی اس کی اپنی غلط بینی کا نتیجہ تھی۔ شیطان کو گمراہ کرنے کے لئے کوئی دوسرا شیطان نہیں آیا تھا، اس کے نفس نے اس کو گمراہ کیا تھا، لیکن اس بدبخت نے اپنی گمراہی کا الزام حق تعالی پر رکھ دیا۔ گویا وہ رب العزت سے یہ کہنا چاہتا تھا کہ حکم سجدہ دے کر تونے مجھے فتنہ میں ڈال دیا، میری عزت نفس مجروح کی ہے اور مجھے نافرمانی پر مجبور کردیا ہے۔ یعنی وہ چاہتا تھا کہ جس غرور علمی اور پوشیدہ غلط پندار میں وہ مبتلاء تھا، اس پر پردہ ہی پڑا رہتا اور اس کی نفسانیت بے نقاب و بدنام نہ ہوتی۔ اس طرح مکمل طورپر غرور میں مبتلاء ہوکر وہ اپنی عاقبت خراب کر بیٹھا اور غرور یعنی خود فریبی اور بیہودہ بات، دونوں کا مجرم ٹھہرا۔
اب یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ ’’غرور، علم کا چور کیوں ہے؟‘‘۔ علم ایک ایسا سمندر ہے، جس کی کوئی تہہ نہیں، ایک ایسا صحرا ہے، جس کا کوئی کنارہ نہیں، کوئی بھی شخص کبھی بھی یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ میں نے سب کچھ معلوم کرلیا ہے، سب کچھ سمجھ لیا ہے۔ عالم الغیب والشہادۃ نے جب مخزن علم و حکمت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو، جنھیں اولین و آخرین کا علم دیا گیا تھا،

جب یہ دعاء سکھلائی ’’اے میرے رب! میرے علم میں اضافہ فرما‘‘ تو ما و شما کس شمار میں؟۔ اس دعاء کا مقصود طلب علم ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم راتوں کو بھی بکثرت عبادت فرماتے تھے، یہاں تک کہ آپ کے پائے مبارک متورم ہو جاتے تھے۔ ایک مرتبہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا ’’یارسول اللہ! آپ اس قدر عبادت کیوں کرتے ہیں؟‘‘۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’عائشہ! کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں‘‘۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی کے قانون نعمت سے اچھی طرح واقف تھے کہ شکر سے نعمت میں اضافہ ہوتا ہے۔ آپ کو کوثر عطا کیا گیا، خیر کثیر عطا کیا گیا، پھر بھی ان نعمتوں میں آپ اضافہ کے طلبگار تھے۔ اسی لئے آپ کو علم میں اضافہ کے لئے دعاء سکھلائی گئی، تاکہ آپ طلب جاری رکھیں تو علم میں اضافہ بھی جاری رہے۔ اگر کوئی شخص طلب علم ترک کردیتا ہے تو اس کے معنی اس کے سواء کچھ نہیں کہ وہ غلط راہ میں مبتلاء ہو چکا ہے کہ اس نے سب کچھ جان لیا ہے اور اس کو علم کی ضرورت نہیں۔ وہ اپنے علم پر مغرور ہوچکا ہے، اس میں تکبر کی کیفیت پیدا ہو چکی ہے، اس سے اس کا حاصل کردہ علم بھی ختم ہو جائے گا، اس لئے ہر سمجھدار آدمی ہمیشہ طالب علم رہتا ہے۔ ہمیں جو کچھ بھی علم ملا ہے، وہ بہت تھوڑا ہے۔ ’’ہمیں بس تھوڑا سا ہی علم دیا گیا ہے‘‘ (سورۂ بنی اسرائیل)۔
غرور صرف علم ہی کا نہیں ہوتا، بلکہ کئی چیزوں کا ہوتا ہے۔ مثلاً عمل کا، عبادت کا، مال و دولت کا، حسن و جمال کا، حسب و نسب کا وغیرہ وغیرہ۔ غرور خواہ کسی چیز کا ہو، مذموم ہے۔ یہ ایک خطرناک بیماری ہے، جس کو یہ مرض لاحق ہوتا ہے، اس کے دل سے خوف خدا نکل جاتا ہے۔ مغرور غضب الہی سے بے فکر ہو جاتا ہے، کسی کی نصیحت نہیں سنتا۔ غرور و تکبر سے بچنا نہایت ضروری ہے۔ حدیث قدسی ہے کہ ’’تکبر میری چادر ہے، جو اسے کھینچے گا، میں اسے دوزخ میں جھونک دوں گا‘‘۔ یہ چادر صرف ذات کبریا پر زیب دیتی ہے، ہم پر عجز و انکساری کی کملی ہی بھلی لگتی ہے۔ واضح رہے کہ برے اخلاق میں سب سے برا خلق غرور و تکبر ہے۔ مغرور اپنی دانست میں خود کو اعلی سمجھتا ہے، لیکن دوسروں کی نظروں میں فوراً ذلیل ہو جاتا ہے۔ اس سے انسان کی اخلاقی اور روحانی ترقی رک جاتی ہے۔ غرور کی سزا آخرت میں جو ملے گی وہ تو ملے گی ہی، لیکن دنیا میں بھی اس کی سزا ضرور ملتی ہے۔ مغرور اور متکبر کو مرنے سے پہلے اسی دنیا میں کسی حقیر اور ادنی شخص کے ذریعہ ذلیل و رسوا کرادیا جاتا ہے۔
غرور کی ضد تواضع ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ جو تواضع اختیار کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کو بلند فرماتا ہے اور جو غرور کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو پست کرتا ہے۔ دعاء کریں کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو غرور علمی سے اپنی پناہ میں رکھے۔ (آمین )
zubairhashmi7@gmail.com