مغربی کنارہ میں نئی یہودی بستی

کچھ ان کے ناز اٹھا کے بہت خوش ہے زندگی
اپنے کو خود مٹا کے بہت خوش ہے زندگی
مغربی کنارہ میں نئی یہودی بستی
اسرائیل کی کابینہ کی جانب سے مغربی کنارہ میں یہودی بستی کی تعمیر کی منظوری پر خاموشی اختیار کرنے والے مغربی قائدین کی مشرق وسطیٰ میں استحکام و امن کی فکر بناوٹی معلوم ہوتی ہے۔ عالمی برادری نے نئی یہودی بستی کے قیام کیلئے اسرائیلی کابینہ کے فیصلہ کی مذمت تو کی ہے مگر اس فیصلہ سے دستبرداری کیلئے خاص دباؤ نہیں ڈالا۔ صدر امریکہ کی حیثیت سے ڈونالڈ ٹرمپ کے انتخاب کے بعد اسرائیل کی پالیسیوں میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں والے عنصر زائد پائے گئے ہیں۔ مقبوضہ مغربی کنارہ میں یہودی بستی کا قیام فلسطینیوں کے انسانی حقوق پر کاری ضرب قرار دیا جاتا ہے تو اس کے مطابق عالمی برادری کو ان توسیع پسندانہ عزائم کو فوری روکنے کیلئے قدم اٹھانے ہوں گے۔ مشرق وسطیٰ میں قیام امن کی کوشش کو نقصان پہنچانے والی حرکتیں کرنے والے اسرائیل کو کھلی چھوٹ دینے کی اصل وجہ امریکی سرپرستی ہے جیسا کہ ڈونالڈ ٹرمپ کے عہدہ سنبھالنے کے بعد یہ اشارہ دیا گیا تھا کہ وہ ان یہودی بستیوں کے لئے ہمدردی رکھتے ہیں۔ انہوں نے یہودی بستیوں کے حامی کو ہی اسرائیل میں امریکی سفیر کے طور پر مقرر کیا۔ سال 1967ء میں اسرائیل کی جانب سے مغربی کنارہ اور مشرقی یروشلم پر قبضے کے بعدسے ان علاقوں میں اسرائیل نے اپنے شہریوں کو اندھادھند طریقہ سے بسایا ہے۔ اس وقت یہاں 140 سے زائد بستیاں قائم ہیں جس میں 5 لاکھ یہودی آباد ہیں۔ ساری دنیا جانتی ہیکہ یہ یہودی بستیاں سراسر بین الاقوامی قوانین کے تحت غیرقانونی ہیں۔ امریکہ کی نئی قیادت نے اپنے ہی سابق صدر اوباما انتظامیہ کے موقف کے برعکس قدم اٹھایا ہے تو اسرائیل کے حوصلے بلند ہونا یقینی تھا۔ بارک اوباما نظم و نسق نے یہودی بستیوں کے قیام پر تنقید کی تھی اور 23 ڈسمبر کو سلامتی کونسل میں قرارداد پر رائے دہی کو ویٹو نہیں کیا تھا۔ تاہم ڈونالڈ ٹرمپ کی قیادت میں امریکی عہدیدار اسرائیل کی ہر سطح پر حمایت کررہے ہیں۔ ٹرمپ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد اسرائیل نے دوسری مرتبہ اس طرح کا اعلان کیا ہے جبکہ مشرق وسطیٰ میں امن کے قیام کیلئے امریکہ کے اب تک کے رول کی عالمی سطح پر جو رائے قائم تھی اس کو ٹرمپ نظم و نسق نے الٹ کر رکھ دیا۔ بظاہر امریکہ کی مشرق وسطیٰ پالیسی پر فلسطینی عوام شکوک ظاہر کرتے رہے ہیں لیکن مذاکرات اور امن کی خاطر اس کی ماضی کی کوششوں کو بھی تسلیم کرتے ہیں۔ ماضی کے تجربات کے بعد ڈونالڈ ٹرمپ کی پالیسی نے فلسطینیوں کو تشویش میں مبتلاء کردیا ہے۔ فلسطینی جنگجو تنظیم حماس نے امریکہ کی پالیسی کو تعصب پر مبنی ہی قرار دیا ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ کا یہ دور مشرق وسطیٰ کیلئے نازک صورتحال اور حالات سے دوچار کرنا ہے تو اس سے فلسطینیوں کو شدید نقصان بھی پہنچ سکتا ہے۔ اسرائیل کی جاریہ کوشش فوری روکنے کیلئے عالمی برادری کو ہی آگے آنا ہوگا۔ اسرائیل کو اس کی پالیسیوں اور کارروائیوں کے عوض بین الاقوامی عدالت میں لے جانے کا عزم کرنے والے فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن کے صائب طریقات کو بین الاقوامی سطح پر اسرائیل کی جارحانہ پالیسیوں کو شدت سے پیش کرکے حمایت حاصل نہیں ہوگی۔ اسرائیل کیخلاف اس کے تکبرانہ رویے کو کچلنے کیلئے ضروری ہیکہ اس کے ساتھ دیگر ممالک کے تجارتی روابط منقطع کرلئے جائیں۔ فلسطینی علاقوں میں غیرقانونی بستیوں کے قیام، فلسطینی عوام کا قتل عام، فلسطینی شہریوں پر اسرائیلی فوج کی زیادتیاں غیرضروری حراست میں رکھنا اور ان کے علاقوں کا محاصرہ کرنا ان کی سرزمین پر ہی انہیں محروس رکھ دینا جیسے اقدامات انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں سمجھی جاتی ہیں۔ اس حقیقت کے باوجود اسرائیل پر شکنجہ کسنے کی عالمی برادری نے جرأت کا مظاہرہ نہیں کیا۔ ساری دنیا کی بڑی طاقتوں کے سامنے اقوام متحدہ کی قراردادیں موجود ہیں اس کے باوجود یہ عالمی طاقتیں اسرائیل کی غیرقانونی پالیسیوں کو ناکام بنانے کی کوشش نہیں کررہی ہیں۔ ایک طرف اسرائیل کی قیادت اقوام متحدہ کی قراردادوں کو مسترد کرنے کا اعلان کرتی ہے دوسری طرف عالمی ادارہ اس پر خاموشی اختیار کرلیتا ہے تو یہ افسوسناک اور المناک سچائی ہے کہ مشرق وسطیٰ کے بارے میں ہمدردی صرف دکھاوا ہے۔ اسرائیلی بستیوں کا مسئلہ اس قدر نازک اور بدتر ہوچکا ہے اب مشرق وسطیٰ میں دو قومی حل کے نظریہ کو خطرہ لاحق ہوا ہے۔ عرب لیگ چوٹی کانفرنس نے حال ہی میں عمان میں منعقدہ عرب چوٹی کانفرنس میں مشرق وسطیٰ صورتحال کا جائزہ لیا تھا اور دو ریاستی نظریہ پر رائے ظاہر کی تھی۔ اس کانفرنس نے بھی اسرائیل کا ہاتھ پکڑنے کی ہمت نہیں دکھائی۔ ایسے میں یہودی مملکت کے حوصلے بلند ہونا یقینی ہوجاتا ہے۔
محکمہ انکم ٹیکس کا نیا آئی ٹی آر فارم
محکمہ انکم ٹیکس نے ٹیکس دہندگان کو اپنا سالانہ آمدنی تختہ داخل کرنے کا عمل آسان کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ ایک صفحہ پر مشتمل ٹیکس ریٹرن فارم نہ صرف آسان اور سہل ہے بلکہ ہندوستان کے 40 ملین ٹیکس دہندگان میں 50 فیصد کیلئے یہ فارم ٹیکس ادا کرنے کی حوصلہ افزائی بھی کرتا ہے۔ حکومت نے ملک میں ٹیکس وصولی کا نشانہ مقرر کرتے ہوئے ہر ایک فرد کو جس کی سالانہ آمدنی مقررہ حدسے زیادہ ہے اور اس کے پاس ایک رہائشی مکان ہے تو اس کیلئے صرف ایک صفحہ پر مشتمل ٹیکس ریٹرن داخل کرنے کی سہولت دی ہے۔ اس کے ساتھ اس نئے آئی ٹی آر فارم میں نوٹ بندی کی مدت کے دوران بینکوں میں جمع کردہ رقومات کی تفصیلات کے علاوہ آدھار کارڈ کی کاپی منسلک کرنے کو لازمی قرار دیا گیا۔ اس سے قبل بھی محکمہ انکم ٹیکس نے ٹیکس دہندگان کو متعدد مواقع فراہم کئے تھے کہ وہ اپنی جمع کردہ رقومات کی تفصیلات کا اعلان کریں مگر ٹیکس دہندگان کی بڑی تعداد ہنوز اس پس و پش میں دکھائی دیتی ہے کہ ان کے کسی بھی مالیاتی موقف کے انکشاف سے ٹیکس مسائل پیدا ہوں گے۔ محکمہ انکم ٹیکس نے جہاں آئی ٹی ریٹرنس کیلئے ایک صفحہ کا فارم تیا رکرکے سہولت فراہم کی ہے وہیں ٹیکس دہندگان میں پائی جانے والی تشویش اور انجانے خوف کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ بیشتر ٹیکس دہندگان کو محکمہ انکم ٹیکس کی جانب سے نوٹسیں دی گئی تھیں۔ انہوں نے دیانتداری سے اپنے کھاتے اور رقومات کی نشاندہی کی تھی جن کھاتے داروں کی جمع کردہ رقم معمولی تھی۔ انہیں نوٹسیں جاری نہیںکی گئیں۔ حکومت اور محکمہ انکم ٹیکس کی ان کوششوں کے باوجود کالادھن رکھنے والے بچ نکلنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو پھر حکومت کو کیا حاصل ہوگا۔؟