مغربی بنگال کے ٹال پلازا پر فوج کی موجودگی پر نیا سیاسی طوفان

ممتابنرجی کا رات بھر سکریٹریٹ میں قیام ، راج بھون پر ترنمول ارکان اسمبلی کا احتجاج ، پارلیمنٹ میں ہنگامہ آرائی ، منوہر پاریکر کا جواب

کولکتہ / نئی دہلی /2 ڈسمبر (سیاست ڈاٹ کام) مغربی بنگال کے ٹول پلازاس میں آج کی موجودگی سے ایک نیا تنازعہ پیدا ہوگیا ۔ چیف منسٹر ممتا بنرجی نے اس اقدام پر احتجاج کرتے ہوئے بطور احتجاج رات بھر سکریٹریٹ میں قیام کیا ۔ انہوں نے سوال کیا کہ آیا یہ ’فوجی بغاوت ہے ‘ ۔ ان کے اس ریمارکس پر مرکز نے شدید ردعمل کا اظہار کیا اور کہا کہ اس سے ان (ممتا) کی سیاسی مایوسی کا اظہار ہوتا ہے ۔ پارلیمنٹ میں بھی اس مسئلہ کی گونج رہی ۔ ترنمول کانگریس نے اس اقدام کے پس پردہ ناپاک عزائم کا شبہ ظاہر کیا لیکن وزیر دفاع منوہر پاریکر نے الزام کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ یہ معمول کا عمل ہے ۔ پاریکر نے یہ بھی کہا کہ یہ انتہائی بدبختانہ بات ہے کہ فوج کو بھی غیر ضروری تنازعہ میں گھسیٹا جارہا ہے ۔

فوج نے بھی ممتا بنرجی کے اقدامات کی تردید کی کہ ریاستی حکومت کو مطلع کئے بغیر ٹول پلازاس پر فوج تعینات کی گئی ہے ۔ اور وہ (فوج) ٹول پلازا پر رقم جمع کررہی ہے ۔ فوج نے کہا کہ کولکتہ پولیس کے تعاون و رابطہ کے ساتھ یہ عمل شروع کیا ہے ۔ تاہم سکریٹریٹ کے قریب واقع ٹول پلازا سے فوج کل رات واپس ہوگئی تھی ۔ ممتا بنرجی نے کل رات سکریٹریٹ پر اخباری نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’جمہوریت کے تحفظ کے لئے میں سکریٹریٹ میں قیام کروں گی ۔ ترنمول کانگریس کے وزراء اور ارکان اسمبلی نے اس واقعہ کے خلاف کولکتہ کے راج بھون کے باہر دھرنا منظم کیا ۔ ممتا بنرجی نے مغربی بنگال کے ٹول پلازا پر تعینات فوج کو واپس طلب کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے سوال کیا کہ ’’کیا یہ فوجی بغاوت ہے ؟‘‘ انہوں نے کہا کہ مرشد آباد ، جلپائی گوڑی ، دارجیلنگ ، شمالی 24 پرگنہ ، بردوان ، ہاؤڑہ ، ہوگلی اور دیگر اضلاع میں فوج متعین ہے ۔ ممتا بنرجی نے کہا کہ ’’ریاستی حکومت کو مطلع کئے بغیر فوج تعینات کی گئی ہے ۔ یہ ایک انتہائی سنگین معاملہ ہے جس کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی ۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں بھی یہ مسئلہ اٹھایا گیا ۔ اصل اپوزیشن جماعت کانگریس نے مغربی بنگال کے  19 ٹول پلازاس پر فوج کی تعیناتی پر مرکز سے وضاحت طلب کی ۔ لوک سبھا میں وزیر دفاع پاریکر نے فوج کی اس تعیناتی کو معمول کا عمل قرار دیا جو مغربی بنگال میں پہلا یا منفرد واقعہ نہیں ہے ۔

انہوں نے کہا کہ بھاری گاڑیوں کی نقل و حرکت کے بارے میں معلومات  جمع کرنے کیلئے گزشتہ ماہ اترپردیش ، جھارکھنڈ اور بہار میں یہ مشق کی گئی ہے جس کا بھاری گاڑیوں کی نقل و حرکت کی معلومات جمع کرنا ہے اور یہ معلومات ایمرجنسی (ہنگامی) حالات میں استعمال کی جاسکتی ہیں ۔ پاریکر نے کہا کہ مغربی بنگال کے علاوہ ، تریپورہ ، منی پور ، میگھالیہ ، ناگالینڈ ، میزوورم ، اروناچل پردیش اور دیگر ریاستوں میں بھی یہ عمل جاری ہے ۔ پاریکر نے جو ایوان زیریں میں کانگریس اور ترنمول کانگریس کے ارکان کو جواب دے رہے تھے کہ مغربی بنگال میں دراصل /28  تا /30 نومبر اس فوجی مشق کے اہتمام کا منصوبہ بنایا گیا تھا لیکن کولکتہ پولیس کی درخواست پر یکم  / اور /2 ڈسمبر کو ٹول پلازا پر فوج تعینات کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا کیونکہ ترنمول اور دیگر جماعتوں نے نوٹوں کی منسوخی کے خلاف /28 تا /30 نومبر مختلف تواریخ پر احتجاج کا اعلان کیا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ یہ انتہائی تکلیف دہ امر ہے کہ چیف منسٹر یہ الزام عائد کررہی ہیں ۔ حالانکہ فوج کی تعیناتی معمول کی مشق ہے جو گزشتہ کئی سال سے جاری ہے ۔ حتی کہ گزشتہ سال بھی /19 اور /21 نومبر کو منعقد ہوئی تھی ۔ کانگریس اور بی ایس پی نے بھی حکومت سے دریافت کیا کہ آیا ریاستی حکومت کو اعتماد میں لئے بغیر آخر کس طرح یہ فوجی مشق کی گئی ۔ جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی ۔ پاریکر نے کہا کہ یہ امر انتہائی بدبختانہ ہے کہ فوج کو ایک غیر ضروری تنازعہ میں گھسیٹا جارہا ہے ۔ جس سے حقیقی صورتحال بیان کرنے کے بجائے سیاسی مایوسی کا اظہار ہوتا ہے ۔ فوج نے بھی وہ مکتوب جاری کیا جو اس ضمن میں حکومت مغربی بنگال کے نام تحریر کیا گیا تھا ۔ میجر جنرل سشیل یادو نے کہا کہ ’’ 9 ریاستوں کے 80 مقامات پر یہ (فوجی) عمل جاری ہے ‘‘ ۔ فوج کی جانب سے رقومات جمع کرنے کے الزامات بالکل بے بنیاد ہیں ‘‘ ۔