مغربی بنگال کی صورتحال

وہ سمجھتے تھے انہی کا ہے زمانہ لیکن
رُخ زمانہ کا جو بدلا تو بُرا مان گئے
مغربی بنگال کی صورتحال
ریاست مغربی بنگال میں صورتحال فرقہ وارانہ نوعیت اختیار کرتی جا رہی ہے ۔ 24 پرگنہ ضلع میں ایک فیس بک پوسٹ سے جو مسئلہ پیدا ہوا تھا وہ شدت اختیار کرگیا ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ اچانک یا اتفاق سے پیدا ہونے والی صورتحال نہیں ہے بلکہ اس کے پس پردہ محرکات ہیں جن کی وجہ سے حالات توقعات سے زیادہ بگڑتے جا رہے ہیں۔ ویسے تو یہ سبھی جانتے ہیں کہ جس وقت سے بی جے پی نے ریاست میں اپنے سیاسی وجود کو منوانے کی کوششیں شروع کی تھیں اس وقت سے ہی ریاست میں وقفہ وقفہ سے حالات ابتر ہونے لگے ہیں۔ معمولی سی باتوں کو طول دیتے ہوئے ریاست میں فرقہ وارانہ منافرت کا ماحول گرم کیا جا رہا ہے اور عوام کے درمیان خلیج کو بڑھایا جا رہا ہے ۔ ہر گوشے سے اس بات کی کوشش کی جا رہی ہے کہ کسی نہ کسی طرح ریاست کے پرسکون ماحول کو پراگندہ کیا جائے تاکہ سیاسی فائدہ حاصل کیا جاسکے ۔ جس وقت سے ممتابنرجی نے مرکزی حکومت کی عوام مخالف پالیسیوں کے خلاف عوام کی سطح پر احتجاج شروع کیا تھا اور ان پالیسیوں کی مخالفت کی تھی اس وقت سے ہی ریاستی حکومت کو کسی نہ کسی بہانے سے پریشان کرنے کا سلسلہ شروع کردیا گیا تھا ۔ گذشتہ انتخابات سے قبل بردوان میںہوئے دھماکہ کے مسئلہ پر حکومت کو نشانہ بنانے کا عمل شروع کیا گیا تھا اور اس کو ضرورت سے زیادہ طول دیتے ہوئے ممتابنرجی حکومت کو نشانہ بنایا گیا تھا ۔ اس کے باوجود بی جے پی کو ریاست میں اپنے قدم مستحکم کرنے میں کوئی کامیابی نہیں مل سکی تھی ۔ ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں بھی بی جے پی اپنی توقعات کے مطابق کامیابی حاصل نہیںکرسکی ہے ۔ اس کے باوجود پارٹی صدر امیت شاہ اور ان کی ٹیم کی جانب سے ریاست میں فرقہ وارانہ ماحول کو پراگندہ کرنے کی حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے بی جے پی کو یہاں سیاسی جگہ فراہم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ گذشتہ دنوں دارجلنگ میں علیحدہ گورکھالینڈ احتجاج کو ہوا دی گئی تھی ۔ دھیرے دھیرے یہ احتجاج جب دم توڑ گیا تو دوسرے طریقے اختیار کئے جا رہے ہیں۔ ان ساری کوششوں کا مقصد ممتابنرجی کی ترنمول کانگریس حکومت کو نشانہ بنانا اور پریشان کرتے ہوئے سیاسی فائدہ حاصل کرنا ہے ۔
اس سارے معاملہ میں مرکزی حکومت بھی جانبدارانہ رویہ اختیار کرنے لگی ہے ۔ وہ بھی سیاسی مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کام کر رہی ہے ۔ بی جے پی کے اقتدار والی کئی ریاستوں میں لا اینڈ آرڈر کی صورتحال بگڑتی جا رہی ہے ۔ اترپردیش میں یوگی آدتیہ ناتھ کے اقتدار میں کئی فرقہ وارانہ نوعیت کے واقعات ہوئے ہیں۔ عصمت ریزی کا شکار لڑکی کو دوبارہ حملہ کا نشانہ بناتے ہوئے اس پر تیزاب پھینکا گیا ہے ۔ اس پر چیف منسٹر یہ بیان دیتے ہیں کہ دیکھنا پڑیگا کہ ایسا کوئی واقعہ پیش آیا بھی یا نہیں ۔ جبکہ دوسری ریاستوں راجستھان ‘ مدھیہ پردیش ‘ جھارکھنڈ اور ہریانہ وغیرہ میں بیف کے نام پر بے قصور مسلمانوں کو نہتے نوجوانوں کو حملے کرتے ہوئے غیر انسانی اور وحشیانہ کارروائیوںکے ذریعہ موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ۔ اس کے باوجود مرکزی حکومت نے ان ریاتوں سے کوئی وضاحت یا رپورٹ تک طلب کرنی ضروری نہیں سمجھی ۔ ان ریاستوں کے گورنرس نے بھی لب کشائی سے گریز کیا جبکہ ممتابنرجی کے اقتدار والی ریاست مغربی بنگال میںایک طرف مرکزی حکومت فوری حرکت میں آتی ہے اور ریاست سے رپورٹ طلب کرتی ہے اور خود ریاست کے گورنر بھی اس صورتحال پر اظہار خیال کرنا ضروری خیال کرتے ہیں۔ مرکزی وزیر داخلہ تک بھی صورتحال سے آگاہی حاصل کرنے مکتوب بھی روانہ کرتے ہیں۔ جب ترنمول کانگریس اقتدار والی ریاست میں ایسا کیا جاتا ہے تو بی جے پی اقتدار والی ریاستوں میں حالات کے بگڑنے پر کیوں خاموشی اختیار کی جاتی ہے ؟ اس کا جواب کوئی بھی دینے کو تیار نہیں ہے ۔
مغربی بنگال میں بھی اگر حالات خراب ہوتے ہیں تو ریاستی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ لا اینڈآرڈر کو بہتر بنانے اور اس کی برقراری کیلئے اقدامات کرے ۔ مرکزی حکومت کو یقینی طور پر صورتحال سے واقفیت رکھنا چاہئے لیکن اس معاملہ میں یکطرفہ طور پر اور جانبدارانہ کارروائیوں سے گریز کیا جانا چاہئے ۔ کسی ریاست کے حالات کو پراگندہ کرتے ہوئے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوششوں کی ‘ چاہے وہ کسی بھی جماعت کی جانب سے کیوں نہ کئے جائیں ‘ مذمت کی جانی چاہئے ۔ کسی ریاست میں حالات اگر متاثر ہوتے ہیں تو سیاسی عینک سے دیکھنے کی بجائے وفاقی شراکت داری کے اصولوں کے تحت کام کرنے اور حالات کو بہتر بنانے کیلئے ریاستی حکومت کی مدد کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اس طرح کے معاملات میںجماعتی وابستگی سے بالاتر ہوکر دستور اور قانون کے تحت مفوضہ فرائض کو پورا کرنے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔