مغربی بنگال ‘ پنچایت انتخابات

مغربی بنگال ‘ پنچایت انتخابات
مغربی بنگال میں آج پنچایت انتخابات کیلئے ووٹ ڈالے جانے والے ہیں۔ ریاست میں برسر اقتدار ترنمول کانگریس کو اپوزیشن جماعتوں سے سخت مقابلہ کا سامنا ہے ۔ انتخابات سے قبل مہم کے دوران اور خاص طور پر پرچہ نامزدگیوں کے ادخال کے دوران ریاست میں تشدد کے واقعات پیش آئے تھے ۔ اب بھی ریاست میں ایک طرح سے بے چینی والا ماحول پیدا کردیا گیا ہے اور اس ماحول میں رائے دہی ہوگی ۔ حالانکہ سکیوریٹی کے سخت ترین انتظامات کئے گئے ہیں لیکن رائے دہندوں کے ذہنوں میں اب بھی کچھ اندیشے ضرور لاحق ہیں۔ انتخابات سے قبل خاص طور پر بی جے پی کی جانب سے ریاست میں بھی فرقہ وارانہ ماحول کو بگاڑنے کی کوششیں کی گئی تھیں۔ نت نئے بہانوں سے ہندو ۔ مسلم جذبات کو بھڑکانے کی کوششیں ہوئیں اور سماج میں تفریق پیدا کرتے ہوئے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے منصوبے بنائے گئے تھے تاہم مغربی بنگال کے عوام نے ابھی تک اس طرح کی کوششوں کو کامیاب ہونے کا موقع نہیں دیا ہے اور وہ انتخابات کے تعلق سے بھی پرامید ہیں ۔ بی جے پی ملک بھر میں اپنا جھنڈا لہرانے کے عزائم کے ساتھ مغربی بنگال کو بھی نشانہ پر رکھی ہوئی ہے ۔ مرکز کی برسر اقتدار پارٹی نے حالانکہ کانگریس مکت بھارت کا نعرہ دیا تھا لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ ملک کو اپوزیشن سے ہی مکت کردینا چاہتی ہے ۔و ہ اختلافی آوازوں کو برداشت کرنے تیار نہیں ہے اور چاہتی ہے کہ ملک میں صرف ایک جماعت بی جے پی کا غلبہ رہے اور دوسری جماعتیں محض اس کے رحم و کرم پر رہیں۔ گذشتہ لوک سبھا انتخابات میں جبکہ سارے ملک میں نریندرمودی کی لہر دیکھنے کو ملی تھی مغربی بنگال میں ممتابنرجی کا جادو سر چڑھ کر بولا تھا ۔ ریاست میں بی جے پی کو کوئی خاص کامیابی نہیں ملی تھی اور اسے مایوسی کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ مسلسل یہ کوششیں ہو رہی ہیں کہ ریاست میں فرقہ وارانہ ماحول کو بگاڑ کر اور سماج میں نفرت کا زہر گھول کر بی جے پی کیلئے سیاسی راستہ بنایا جاسکے ۔ بی جے پی اپنے اس مقصد کی تکمیل کیلئے کوئی موقع ہاتھ سے جانے دینا نہیں چاہتی ۔
انتخابی سیاست میں سرگرمی سے حصہ لینے کا ہر ایک کو حق حاصل ہے ۔ ہر جماعت اپنے طور پر رائے دہندوں سے رجوع ہوسکتی ہے اور ان کی تائید مانگ سکتی ہے لیکن کسی بھی جماعت کو یہ اجازت نہیں ہونی چاہئے کہ وہ ملک کے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے ماحول کو بگاڑ کر اپنے سیاسی عزائم کی تکمیل کرے ۔ بی جے پی یہ فرض کرچکی ہے کہ سارے ملک پر حکمرانی کا حق صرف اسے حاصل ہے اور اس کے خلاف آواز اٹھانے کی بھی کسی کو اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ جہاں تک ممتابنرجی کا سوال ہے انہوں نے مسلسل اہم عوامی مسائل پر این ڈی اے کی نریندر مودی زیر قیادت حکومت کے خلاف اعلان جنگ کیا ہے ۔ انہوں نے نوٹ بندی کے خلاف جدوجہد کی تھی ۔ انہوں نے جی ایس ٹی کے نفاذ کے خلاف آواز اٹھائی تھی اور بی جے پی کی فرقہ وارانہ پالیسیوں کے خلاف مسلسل جدوجہد کر رہی ہیں۔ بی جے پی اسی بات کو برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں ہے اور نہ صرف بی جے پی بلکہ سنگھ پریوار کی دوسری تنظیموں کو بھی ریاست میں سرگرم کردیا گیا ہے اور ان کے ذریعہ نت نئی کوششوں سے ریاست کے ماحول کو پراگندہ کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ بی جے پی کو یہ احساس ہے کہ وہ سیاسی پالیسیوں اور اپنے پروگرامس کی بنیاد پر ریاست میں عوام کی تائید حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتی اسی لئے حسب روایت فرقہ واریت کا سہارا لے کر یہ کام کیا جا رہا ہے ۔ بی جے پی کو امید ہے کہ فرقہ پرستی کا زہر گھول کر وہ اپنے مقاصد کی تکمیل میں کامیاب ہوسکتی ہے ۔
مغربی بنگال کے رائے دہندوں نے اب تک بی جے پی کی اس طرح کی کوششوں کو کامیاب ہونے نہیں دیا ہے لیکن یہ بات ضرور ہے کہ مسلسل کوششوں سے ریاست کا ماحول ضرور خراب ہوسکتا ہے ۔ ترنمول کانگریس حکومت کی جانب سے حالات کو بگڑنے سے بچانے کیلئے مسلسل جدوجہد کی جا رہی ہے اور یہ کارنامہ ممتابنرجی کا ہے ۔ وہ بنگال کے حالات کو بگڑنے کا موقع نہیں دینا چاہتیں۔ ایسے میں خود بی جے پی کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے سیاسی مفادات کی تکمیل اور عزائم کو پورا کرنے کیلئے ریاست کے ماحول کو پراگندہ کرنے کی کوشش نہ کرے ۔ فرقہ واریت کا زہر گھول کر کامیابی حاصل کرنے کے منصوبے رکھنے والی بی جے پی کو شکست دینا اور اسے سبق سکھانا ریاست کے عوام کی ذمہ داری ہے اور یہ ذمہ داری بنگال کے عوام اب تک بخوبی نبھاتے آئے ہیں۔ مستقبل میں بھی ان سے ایسی ہی امید ہے ۔