مغربی ایشیا میں امریکی فوج پھر سرگرم، اسلامک اسٹیٹ نئی وجہ

خطہ میں اعتماد کی کمی کو دور کرنا امریکی صدر اوباما کی چار رخی حکمت عملی کیلئے بڑے چیلنجوں میں شامل
واشنگٹن ، 22 ستمبر (سیاست ڈاٹ کام) امریکی صدر براک اوباما نے گزشتہ ہفتے دولت اسلامیہ برائے عراق و شام (داعش) کے چیلنج سے نمٹنے کیلئے نئی حکمت عملی کا خاکہ پیش کردیا۔ درحقیقت اس چار رخی طرزعمل کا مطلب امریکہ کی مشرق وسطیٰ کو واپسی ہوگی۔ ابتدائی جائزہ لیں تو یہ جرأت مندانہ فیصلہ ہے جس کیلئے براک اوباما مبارکبادی کے مستحق ہیں۔ چند ہفتے قبل کی بات ہے کہ انھوں نے قبول کیا تھا کہ امریکہ کے پاس آئی ایس (دولت اسلامیہ) سے نمٹنے کیلئے پالیسی کا فقدان ہے۔ عظیم تر عالمی اثرات اور آئی ایس کی کامیابیوں کو دیکھتے ہوئے یہ لازمی ہے کہ اسے بے اثر کرنے کیلئے کوئی مربوط کارروائی کی جائے۔ آیا اوباما اپنے مقصد میں کامیاب ہوپائیں گے؟ امریکی صدر کی نئی حکمت عملی کو کم از کم پانچ بڑے چیلنجس درپیش ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ طویل مدتی جنگ ہونے والی ہے۔ اگرچہ دو جرنلسٹوں کے آئی ایس کی جانب سے سفاکانہ قتل کے بعد عوامی رائے تبدیل ہوگئی ہے، لیکن اس میں ایک اور موڑ آسکتا ہے۔ نیز اوباما جنھیں آئی ایس سے لڑنے کیلئے شامی اپوزیشن کو مسلح کرنے کیلئے امریکی کانگریس کی درکار تائید فراہم کی جارہی ہے، اُن کیلئے یہ رجحان جاری رہنے کی ضرورت ہے۔ لیکن وسیع تر مباحث بھی ہورہے ہیں جس میں امریکی ملٹری کی موجودگی کی نوعیت اور مقدار پر باتیں ہورہی ہیں۔ پہلے ہی اوباما اور اُن کی ملٹری کے درمیان عراق میں زمینی افواج کے استعمال کے بارے میں اختلافات پائے جاتے ہیں۔ اوباما چاہتے ہیں کہ ’’ٹھیک ٹھیک نشانے کے ساتھ ‘‘ فضائی حملوں پر انحصار کیا جائے جبکہ ملٹری قیادت امریکی زمینی دستوں کو بھی مشغول کرنے کے امکان کو کھلا رکھنے کی خواہاں ہے۔ ملٹری حکام جو اُن کے تحت کام کرچکے ہیں، ان کے حوالے سے ایوان کی انٹلیجنس کمیٹی میں کہا گیا ہے کہ ’’نیم دلانہ یا تجرباتی کوششیں، یا صرف فضائی حملے ہم پر بھاری پڑسکتے ہیں اور درحقیقت ہمارے دشمنوں کو مضبوط کرسکتے ہیں۔ دوئم یہ کہ اوباما کا مقصد ’’فضائی حملوں کی جامع مہم‘‘ کے ذریعہ آئی ایس کو کمزور کرنا ہے۔ انھوں نے عراق میں امریکی زمینی دستوں کی تعیناتی کو محتاط انداز میں ٹال دیا ہے حالانکہ انھوں نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ امریکی غیرلڑاکا سرویس ممبرز عراقی اور کرد فورسیس کی ٹریننگ، انٹلیجنس اور سازوسامان کے ساتھ مدد کریں گے۔ تیسرے یہ کہ اوباما کو مشرق وسطیٰ کو یکجا کرنے کے اہم کام کا سامنا ہے۔ پہلی بار اس خطہ کی دیگر مملکتیں جو آئی ایس کی کھلے یا مخفی طور پر تائید کرتی رہی ہیں، اب دیکھ رہی ہیں کہ کیا ہوچکا ہے۔ سعودی عرب پہلے ہی آئی ایس سے لڑنے کیلئے اپوزیشن فورسیس کی تربیت کیلئے امریکہ کی مدد سے اتفاق کرچکا ہے۔ شام امریکی صدر کیلئے چوتھا بڑا چیلنج ہے۔ آئی ایس کے خلاف لڑائی کو شام تک توسیع دینے اوباما کا فیصلہ خطرات سے پُر ہے۔ اور آخر میں اوباما کو امریکی طرزعمل کے تعلق سے مقامی لوگوں میں اعتماد کے فقدان کو ختم کرنے کے چیلنج کا سامنا بھی درپیش ہے۔ امریکہ بھلے ہی ایک عسکری گروپ کو بے اثر کرنے میں کامیاب ہوا مگر اس کا مطلب امن اور استحکام کا یقین نہیں۔