معیشت کااستحکام ضروری

جب جیب میں پیسے بجتے ہیں‘جب پیٹ میں روٹی ہوتی ہے
اُس وقت یہ ذرہ ہیرا ہے‘اُس وقت یہ ذرہ موتی ہے
معیشت کااستحکام ضروری
ہندوستان کی معیشت کیلے گذشتہ تقریبا پانچ سال کا عرصہ مشکلات سے بھرپور رہا ہے ۔ تقریبا دو دہائیوں تک ہندوستانی معیشت نے ترقی کا سفر طئے کیا تھا تاہم اس کے بعد دنیا بھر میں پیدا ہوئے معاشی انحطاط کی وجہ سے حالات بگڑنے شروع ہوگئے اور صورتحال اس قدر بگڑ گئی کہ لاکھوں نوجوانوں کو روزگار کے مواقع سے محروم ہونا پڑا تھا ۔ گذشتہ پانچ سال کے دوران اکثر و بیشتر یہ الزام عائد کیا جاتا رہا کہ حکومت کی سطح پر فیصلہ سازی کے فقدان کی وجہ سے معیشت کو وہ جہت اور رفتار حاصل نہیںہوسکی ہے جس کی اسے ضرورت محسوس کی جا رہی تھی ۔ یوپی اے حکومت کی دوسری معیا د کے دوران خاص طورپر صورتحال بگڑ گئی اور معیشت کی ترقی کی رفتار اندازوں سے کافی کم ہوتی گئی ۔ معیشت کی ترقی پر ہونے والی منفی اثرات کے نتیجہ میں عام شہریوںپراس کے اثرات مرتب ہوئے اور عوام کا معیار زندگی گذرتے وقت کے ساتھ بہتر ہونے کی بجائے ابتر ہوتا گیا ۔ معیشت کی ترقی متاثر ہونے کے نتیجہ میںمہنگائی میںاضافہ ہوتا گیا اور یہاں تک کہ عام استعمال کی اشیا بھی عام آدمی کی پہونچ اور رسائی سے باہرہوتی نظر آ رہی تھیں۔دودھ سے لے کر ادویات تک ‘ ترکاری سے لے کر چاول تک ‘ تیل سے لے کر پٹرول اور ڈیزل تک ‘ پکوان گیس سے لے کر دوسری روز مرہ کے استعمال کی اشیا دالیںو غیرہ تک اتنی مہینگی ہوگئیں کہ عام آدمی کا بجٹ اس کے نتیجہ میںدرہم برہم ہو کر رہ گیا۔ حکومت کی جانب سے مسلسل یہ ادعا کیا جاتا رہا کہ قیمتوںپر قابو پانے کیلئے ہر ممکنہ اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ حکومت کے یہ اعلانات تاہم صرف کاغذی ہی رہے اور عملی طورپر کچھ بھی نہیںکیا گیا ۔ اپوزیشن جماعتوںکی جانب سے حکومت کی بے عملی اور مسلسل خاموشی کو تنقیدوں کا نشانہ بنایا جاتا رہا اور یہ الزام عائد کیا گیا کہ حکومت نے عوام کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیاہے۔ حکومت نے اکثر وبیشتر عالمی سطح پر پیدا ہوئے معاشی انحطاط کواسکی وجہ قرار دیا اور یہ دعوی بھی کیا تھا کہ عالمی انحطاط کی صورتحال کے باوجود ہندوستان کی معاشی ترقی کی رفتار دوسرے ملکوںسے کافی بہتر ریکارڈ کی جا رہی ہے ۔
اب جبکہ ملک میں بی جے پی زیر قیادت این ڈی اے کی حکومت قائم ہوچکی ہے اور نریندر مودی ‘ جو ترقی کے لئے بلندبانگ دعوے کرتے رہے ہیں ‘ وزارت عظمی کی ذمہ داری سنبھال چکے ہیں ‘ ایسے میں یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ حالات کو مزید بگڑنے کی اجازت دئے بغیر ‘ معیشت کو مزید تباہی کے راستہ پر آگے بڑھنے کا موقع دئے بغیر معیشت کے استحکام پر توجہ کرے اورایسے اقدامات کئے جائیں جن کے نتیجہ میںملک کے عوام کو جو مسائل اور مشکلات درپیش ہیںان کو ممکنہ حد تک کم کیا جاسکے۔ وزارت فینانس کی ذمہ داری ارون جیٹلی کوسونپی گئی اور انہوںنے بجٹ کی تیاری کے سلسلہ میںاپنی مشاورت کا آغاز کردیا ہے ۔ انہوںنے ریزرو بینک آف انڈیا کے گورنرسے اور سکیوریٹیز اینڈ ایکسچینج بورڈ کے صدر نشین سے بات چیت کی ہے ۔ وہ کاروباری ماحول کو بہتر بنانے اور سرمایہ کاروںکیلئے سازگار ماحول تیار کرنے پر توجہ دے رہے ہیں۔ یقینی طور پر کاروبار اور سرمایہ کاری کوفروغ ملنا چاہئے لیکن حکومت کی اولین ترجیح ملک کے عوام کو راحت پہونچانے پر مرکوز ہونی چاہئے ۔ تاجروں اورسرمایہ کاروں کیلئے بہتر ماحول فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن محض اسی پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے مہنگائی اور حالات کی مار سہنے والے عوام کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے۔ نریندر مودی حکومت کے اقتدار سنبھالتے ہی عوام کو یہ توقعات تھیں کہ اب شائد عوام کیلئے حالات بہتر ہوسکتے ہیں لیکن جواشارے مل رہے ہیںوہ درست نہیں کہے جاسکتے ۔کہا جارہاہے کہ حکومت نے گیس کی قیمتوںمیںاضافہ کی رضامندی دیدی ہے ۔ علاوہ ازیں ڈیزل کی قیمتوںمیں ماہانہ اضافہ کاسلسلہ بھی برقرار رکھا جا رہا ہے۔
معیشت کو چند تجارتی گھرانوں تک محدود کرنے سے حکومت کو گریز کرنے کی ضرورت ہے ۔ معیشت کو تاجر برادری یا سرمایہ داروں کے گرد محور بنا کر تیار کرنے کی بجائے عوام کو راحت اور سہولت پہونچانے پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے پالیسیاں تیار کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس بات سے کوئی انکار نہیںکرسکتا کہ معیشت کی حالت ابتر ہے اور اسے استحکام بخشنا آسان نہیںہوگا لیکن اگر حکومت سنجیدگی سے کوششیںکرتی ہے اور اس کے سامنے تاجر اور سرمایہ دار برادری کی بجائے ملک کے عام آدمی کا مفاد رہا تو بڑی حد تک صورتحال کو قابو میںکرنے میںکامیابی مل سکتی ہے ۔ تجارتی اورکاروباری روابط کی بجائے رابطہ عامہ پر حکومت کو توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ معیشت کو مستحکم کرنے پر اگر توجہ نہیں دی گئی تو ملک کے عوام کو آج جو مسائل اور مشکلات درپیش ہیں وہ کم ہونے کی بجائے مزید بگڑ جائیں گے اور مودی حکومت کو عوام کے سامنے جواب دینا ہوگا ۔