معمولی باتوں پر ہجومی تشدد میں ہلاکتوں کا تشویشناک رجحان!

نئی دہلی 13 جولائی (سیاست ڈاٹ کام) ایک مزدور جتن داس کو آسام میں تین روز قبل شادی تقریب کے مقام پر برہم ہجوم نے مار پیٹ کر موت کے گھاٹ اُتار دیا جبکہ اُس کا قصور صرف اتنا تھا کہ اُس نے بے تحاشہ خوشی میں زور دار آوازوں والے پٹاخے جلانا روک دینے کی خواہش کی تھی جس سے پھر ایک بار رواداری کا مسئلہ اُجاگر ہوگیا ہے جس پر بڑی آسانی سے انتہائی برہمی کے ساتھ جارحیت کا مظاہرہ کیا جارہا ہے۔ اِس ہفتے 35 سالہ مزدور کی دردناک موت اُن سلسلہ وار ہجومی تشدد کے واقعات کی ایک کڑی ہے جس نے ہندوستان کو حیرت میں مبتلا کر رکھا ہے اور ماہرین مجبور ہوگئے ہیں کہ اجتماعی غصے اور برہمی کے بارے میں ضروری تجزیہ کیا جائے کیوں کہ اِس سے وقفے وقفے سے اموات پیش آرہی ہیں۔ رپورٹس کے مطابق کم از کم 20 افراد مئی اور جولائی 2018 ء کے درمیان ہندوستان کے مختلف حصوں میں پیش آئے 14 علیحدہ واقعات میں موت کی نیند سلادیئے گئے۔ اگرچہ نیشنل کرائمس ریکارڈس بیورو ہجومی تشدد کا خصوصیت سے ذکر نہیں کرتا ہے لیکن ہجوم کے ہاتھوں ہلاکتوں اور غنڈہ گردی کے واقعات بڑھتے ہی جارہے ہیں۔ جتن داس کی ہلاکت جس نے ایک پٹاخہ اُسے لگنے پر آتش بازی کو روک دینے کی خواہش کی تھی، وہ ہجومی تشدد کے تسلسل کی محض ایک کڑی ہے۔ اگر اُس کے مطالبہ نے اِس قدر برہمی پیدا کردی ہے تو پھر معمولی معمولی باتوں پر ہجوم لاء اینڈ آرڈر کو اپنے ہاتھوں میں لے کر من مانی کرتا رہے گا جس کے نتیجہ میں ہلاکتیں واقع ہوتی رہیں گی۔ اب تک کے موب لنچنگ (ہجومی تشدد) کے واقعات کے بعض مہلوکین بیف کھانے والے بتائے گئے یا پھر وہ گاؤ ذبیحہ میں ملوث بتائے گئے۔ بعض دیگر کو گردوں کے اسمگلر سمجھا گیا اور کئی کیسوں میں بچوں کا اغواء کرنے والے عناصر کے شبہ میں مختلف افراد کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ اِس طرح ہجوم کے ہاتھوں انصاف رسانی کی وجوہات مختلف ہیں لیکن بنیادی سبب اکثر و بیشتر یکساں ہیں اور وہ افواہوں سے پیدا شدہ شبہ ہے جو سوشل میڈیا پلاٹ فارم جیسے واٹس اپ سے پھیلائی جاتی ہیں۔ ممبئی کے سائیکالوجسٹ ہریش شٹی کے مطابق ہندوستان کوئی بڑے سانحہ یا تباہی کے بعد انسانوں کو لاحق ہونے والی کیفیت میں مبتلا معلوم ہورہا ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ملک کے مختلف مقامات پر کسی نہ کسی وجہ سے مختلف واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔