آپ میں سے کچھ بچے چشمہ لگاتے ہیں اور کچھ کو اس کی ضرورت نہیں ہوتی ، لیکن بچو! کیا آپ نے کبھی سوچا کہ آنکھ کام کیسے کرتی ہے ؟ اور پہلا کیمرا کب بنایا گیا ؟ بچو! آج ہم آنکھ اور بینائی کے بارے میں جو کچھ جانتے ہیں ، وہ مسلمان سائنسدانوں کی وجہ سے ممکن ہوا ہے ۔ آج سے کئی سو سال پہلے 9 ویں صدی عیسوی میں مسلمان سائنسدانوں نے آنکھ کی بناوٹ ، کام اور دیکھنے کی صلاحیت پر تحقیق شروع کی ۔ کچھ یونانی سائنسدانوں کا خیال تھا کہ آنکھ میں روشنی نہیں ہوتی بلکہ باہر کی روشنی جب آنکھ کے اندر پہنچتی ہے تو ہم دیکھتے ہیں اور کچھ سائنسداں یہ مانتے تھے کہ روشنی ہماری آنکھ میں ہی موجود ہوتی ہے لیکن اصل میں آنکھ کیسے کام کرتی ہے ، یہ دریافت کرنے کا اعزاز مسلمان سائنسدانوں کے نام ہے ۔ نویں صدی عیسوی میں اپنی تحقیق اور معلومات کی وجہ سے شاندار کارنامے انجام دینے والے سائنسداں ’’ الکندی ‘‘ نے جدید بصریات ( Optics) یعنی آنکھ اور روشنی کے عمل کے سائنسی مطالعہ کی بنیاد رکھی اور ان تمام قدیم سائنسی نظریات کی حقیقت جاننے کی کوشش کی ، جو اب تک سامنے آچکے تھے ۔ ابن الہیشم نے الکندی کی تحقیق کی بنیاد پر بصارت کا نظریہ مرتب کیا اور بتایا کہ آنکھ میں پڑنے والی روشنی کی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں ۔ اس زمانے میں عام طور پر سائنسی تحقیق کو بغیر کسی ثبوت کے ہی قبول کر لیا جاتا تھا مگر ابن الہیشم نے سائنسی تحقیق کو ثابت کرنے کیلئے تجربے کئے ۔ ان کی کتاب Book of Optics سائنسی نظریات کو تجربات کے ذریعے ثابت کرنے کے حوالے سے ایک شاندرا کتاب ہے ۔ ابن الہیشم نے کیمرا کی ابتدائی شکل پن ہول کیمرا ڈیزائن کیا اور اس کے ذریعے Carmera Obscura یعنی ’’ ڈارک روم ‘‘ بھی دریافت کیا ۔ ابتدائی کیمرے کی مدد سے لی گئی پہلی تصویر جو آج بھی محفوظ ہے ، فرانس میں 1827 میں لی گئی ۔