انیس عائشہ
ارشاد رب العالمین ہے: ’’وہی اللہ ہے، جس نے رسول کو ضابطہ و ہدایت اور دین حق دے کر اس غرض سے بھیجا ہے کہ وہ ہر دین کے مقابلے میں اسے (پوری انسانی زندگی پر) غالب کردے‘‘۔ (سورۃ الصف۔۹)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بالکل ابتدائی مرحلہ میں ایک محفل میں فرمایا تھا کہ ’’اگر تم یہ دعوت قبول کرلو تو سارا عرب تمہارے زیر نگیں آجائے گا‘‘۔ آپﷺ کے پیش نظر جہاں اقتصادی اور تمدنی انقلاب تھا، وہیں سیاسی انقلاب بھی تھا، لہذا آپ نے مخلص اشخاص کو تلاش کیا اور انھیں دورِ جہالت کے نظام کے خلاف مکمل علم دے کر ایک تنظیمی دھاگے میں پرودیا، جس کی وجہ سے وہ افراد ایک ناقابلِ شکست قوت بن گئے۔
عام طورپر معاشرے کی حالت پر جمود طاری ہوتا ہے، بس ایک حصہ فعال ہوتا ہے، جو ذراسی ہمت ملنے پر خود بخود حرکت میں آجاتا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تمدنی اصلاح، انسانیت کی تعمیر نو اور علم کے ذریعہ انقلاب لانا چاہتے تھے۔ اس کی روح یہ تھی کہ جس خدا کی عبادت مسجد میں ہوتی ہے، اسی کی اطاعت کھیت، بازار، عدالت، گھر اور مدرسوں میں بھی ہو۔ قریش کی طرف سے طرح طرح کی تدبیریں، سازشیں اور حملے ہوئے، لیکن آپﷺ نے کبھی تشدد کی تعلیم نہیں دی، بلکہ ممانعت فرمائی، یہاں تک کہ مخالفین اپنے آپ کو ذلیل و پست سمجھنے لگے۔ آپﷺ نے اسی مکہ کے مکینوں کو (جو تلوار لئے کھڑے رہتے تھے) قحط کے زمانے میں غلہ کی رسد جاری کی۔ فتح مکہ کے موقع پر ظلم کا بدلہ لینے کی بجائے سب کو معاف فرمادیا۔ آپﷺ کی وجہ سے حالات یکسر بدل گئے اور ایک ایسا معاشرہ تشکیل پایا کہ شراب کی ممانعت کے بعد ہونٹوں سے لگے پیالے ہونٹوں سے جدا ہو گئے۔ جب آپﷺ نے جہاد کے لئے آواز دی تو نوعمر لڑکے تک تیار ہوگئے، چندہ طلب کیا تو حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سامان سے لدے اونٹوں کی قطار کھڑی کردی، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے گھر کا سارا سامان پیش کردیا، مزدوری کرنے والے صحابۂ کرام نے اپنی دن بھر کی مزدوری پیش کردی اور جب مال غنیمت جمع ہونے لگا تو مجاہدین نے ایک ایک سوئی لاکر جمع کردی، یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے پیغام نے انسانی ذہن و قلوب کو بدل دیا۔
آپﷺ نے ایسا پیغام اور علم پیش کیا، جس کے ذریعہ آقا، غلام، امیر، وزیر، افسر، سپاہی، تاجر، مزدور، معلم، لیڈر، ادیب، فلسفی، بچے اور بوڑھے سب یکساں سبق لے سکتے ہیں۔ اسلامی درس دے کر آپﷺ نے ایک ایسی جماعت بنائی، جو ایک طرف دنیا سے بے نیاز تھی تو دوسری طرف دنیا پر حکمرانی کرسکتی تھی۔
اسلام نے وحدانیت، آزادی اور مساوات کا جو تصور دیا ہے، وہ اپنے ماننے والوں کو غلامی پر راضی نہیں ہونے دیتا، لیکن رفتہ رفتہ مسلمانوں کا ایک طبقہ غیر اسلامی طاقتوں کی زد میں آگیا، جس کے نتیجے میں آج ہم دنیا میں اپنی توہین اور پسماندگی کے اثرات دیکھ رہے ہیں۔ آج کے تمدن اور باطل نظام کو ایک خاص طرح کا انسان درکار ہے۔ ہمارے معاشرہ کا المیہ یہ ہے کہ موجودہ نظام جن چیزوں کو پسند کرتا ہے، ہمارا معاشرہ خود بخود انھیں پسند کرنے لگتا ہے۔ وہ جس لباس اور جس بولی کو پسند کرتا ہے، ہمارا معاشرہ اس کو اپنا لیتا ہے۔ اس کے ایک اشارہ پر حیادار گھرانوں سے حیا غائب ہو جاتی ہے اور ہم اس نظام کے مطالبہ پر اپنی اولاد کو انتہائی محبت و شفقت سے اس نظام کے حوالے کردیتے ہیں۔ یاد رہے کہ ماحول کی طاقت، مصلحین کے دِلوں میں جگہ حاصل کرنے کا موقع تلاش کرتی ہے اور ذہنی مصالحت کی کوئی راہ نکال لیتی ہے۔ ماحول، اس نسل کی نہ سہی اگلی نسل کی تباہی کا انتظار کرلیتا ہے۔ اسلام اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم نے اس خطرے کا پورا لحاظ رکھا، اس لئے اس سے واقفیت بہت ضروری ہے۔ ہمیں اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ کہیں ہم ایسے نوجوان تو نہیں تیار کر رہے ہیں، جو روزہ، نماز اور اخلاق کا انفرادی سبق تو جانتے ہیں، لیکن تمدنی دنیا کے وسیع میدان میں بے حسی کے ساتھ باطل کے کام آرہے ہیں، لہذا بہت ہوشیار اور چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں یہ ثابت کرنا ہے کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی امت نیکی اور سچائی کی سپاہی ہے۔ یہی وہ امانت ہے، جس نے زندگی کو سب کچھ دیا ہے۔
سیرت پاک کے جلسے ہوں، جدوجہد کا سبق ہو، وحدانیت کے چرچے ہوں، ایمان کامل کی تقاریر ہوں، ہر سمجھدار ذہن ۱۴۰۰ سال کا فاصلہ طے کرکے اپنے آپ کو اس عظیم ہستی، اس واحد معلم اور اس انسانِ اعظم کے قریب محسوس کرے اور پھر یہ سوچے کہ اس درس میں ہمارا کیا کردار ہے اور اس میراث سے ہم کس طرح عہدہ برآ ہوسکتے ہیں۔ لہذا دیکھنا یہ ہے کہ کہیں ہم غلط راستے پر تو نہیں چل رہے ہیں؟۔
اب وقت آگیا ہے کہ ہم تہذیبِ حاضر کی مرعوبیت سے باہر نکلیں، اس مادہ پرستانہ دَور کے خلاف کمربستہ ہو جائیں اور عملی زندگی میں سیرت پاک کے ہر پہلو پر توجہ مرکوز کریں۔ ہم سب واقف ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان قرآن شریف کی صورت میں ہمارے سامنے ہے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ایک ایک لفظ کی تعلیم دی اور عملاً کرکے دِکھایا بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو قرآن و سیرت پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)