معرکۂ بدر

مولانا حبیب عبد الرحمن الحامد

چشم فلک نے پہلی مرتبہ حق و باطل کو آمنے سامنے پایا ۔ ۱۷؍ رمضان المبارک کو وادی بدر میں ۳۱۳ نہتے بے سروسامان مسلمانوں نے ایک ہزار کے لشکر جرار کا رُخ موڑ دیا ۔ ایسے جیالے بھی تھے ، جن کو اپنے قبیلوں پر ناز تھا ، اپنے بازوؤں پر گھمنڈ تھا ، جو اپنی حیثیت کے برابر کسی اور کو نہیں سمجھتے تھے ۔ غرض دولت اور کثرت سے ان کی گردنیں تنی ہوئی تھیں ۔ ابوجہل بھی اپنے آپ کو اور اپنے ساتھیوں کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں حق پر سمجھتا تھا ۔ جنگ پر جانے سے پہلے خانۂ کعبہ کے غلاف کو تھامے ہوئے دعاء کر رہا تھا کہ جو حق پر ہو کامیابی اسے عطا کر ۔
در اصل کفار مکہ چاہتے تھے کہ مدینۃ النبی میں پروان چڑھنے والی یہ مسلمانوں کی جماعت ترقی نہ کرنے پائے ، بلکہ پہلے ہی ان کو ختم کردینا چاہئے۔ مسلمان ظلم و ستم سہتے ہوئے مکہ کی سرزمین پر گزر بسر کرتے ہوئے زندگی گزار رہے تھے۔ ہادی برحق صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ظلم سے نجات کے لئے حبشہ ہجرت کرنے کا حکم دیا۔ یہ نبوت کا پانچواں سال تھا۔ حبشہ کی سرزمین مسلمانوں کے لئے سازگار ثابت ہوئی، وہاں کا بادشاہ اصحمہ جس کو ہم نجاشی کے نام سے جانتے ہیں، مسلمانوں کی گفتگو اور فرمان رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سن کر نہ صرف بیحد متاثر ہوا، بلکہ وہ اسلام میں داخل ہو گیا۔
اہل مکہ کی ساری کوشش اس کے ملک سے مسلمانوں کو نکالنے میں ناکام رہی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے یثرب کی راہ مسلمانوں کے لئے ہموار کردی کہ یہی یثرب مدینۃ النبی بننے والا تھا۔ جب مسلمان ہجرت کرکے مدینہ پہنچے اور خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بحکم اللہ تعالیٰ ہجرت کرتے ہوئے مکہ معظمہ کو چھوڑکر مدینۃ النبی کو اپنا دارالہجرت بنایا تو کفار مکہ کو یہ بات کھلی اور وہ انتقام کی آگ میں جھلسنے لگے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ آنے کے بعد مجاہدین کی چھوٹی چھوٹی ٹکڑیاں بناکر راستے کی خبر لیا کرتے، تاکہ دشمن مسلمانوں کو غافل نہ سمجھے۔ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ جو قبیلہ بنو عبد الشہل کے سردار تھے، خانہ کعبہ کی زیارت کے لئے اپنے دوست امیہ بن خلف کے ساتھ گئے ہوئے تھے۔ ابو جہل نے کہا کہ اگر تم امیہ بن خلف (حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا مالک) کے ساتھ نہ ہوتے تو میں تمھیں حرم کعبہ کی زیارت سے روکتا۔ حضرت سعد بن معاذ نے جواباً کہا اگر خانہ کعبہ کی زیارت سے روکو گے تو ہم تمہارا کوئی تجارتی قافلہ ملک شام نہ جانے دیں گے۔ ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ تم نے جن کو اپنے ملک سے نکالا ہے، وہی تم کو ختم کردیں گے ۔ پوچھا کیا یہاں آکر؟، تو کہا ’’مجھے نہیں معلوم‘‘۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد اللہ بن جحش کے ساتھ آٹھ آدمیوں کو ایک بند لفافہ کے ساتھ حکم دیا کہ بطن نخلہ میں پہنچو۔ وہاں ان لوگوں نے عمرو حضرمی کے ایک قافلہ کو رکا ہوا پایا۔ مسلمان سوچ میں پڑ گئے کہ ان کے سامنے دو راستے تھے، یا تو ان کو ختم کرنا یا احترام کے مہینے میں جنگ کرنا، ورنہ یہ لوگ مکہ جاکر دوسروں کو بھیج کر اس چھوٹی سی ٹکڑی کا خاتمہ کردیں گے۔ جب کہ یہ رجب کا آخری دن تھا۔
واقد تمیمی کے ایک تیر نے عمرو حضرمی کا خاتمہ کردیا، دو گرفتار ہوئے اور دو بھاگ گئے ۔ مسلمانوں نے واپس مدینہ آکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں غنیمت پیش کیا، جسے حضور نے لینے سے انکار کردیا اور کہا کہ تم کو حرمت والے مہینہ میں جنگ کے لئے کس نے حکم دیا۔
اللہ تعالیٰ کے احکامات آئے کہ ’’اے محمد!(صلی اللہ علیہ وسلم) یقیناً حرمت والے مہینوں میں جنگ و جدال بری بات ہے، لیکن حرم کعبہ کے طواف سے لوگوں کو روکنا اس سے بڑھ کر بری بات ہے‘‘۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مال غنیمت منگواکر تقسیم فرما دیا۔
غزوۂ بدر کا سبب کفار مکہ کے پاس عمرو حضرمی کا قتل تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تھے کہ جو لوگ مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ آگئے، جن کا مال و اسباب، زمین اور گھر وغیرہ کفار مکہ نے اپنے قبضہ میں لے لیا ہے، اس کے لئے ابو سفیان کے قافلہ کو روک کر جو ملک شام سے آرہا ہے، ایک معاہدہ کرلیں۔ اسی غرض سے چند مجاہدین کے ساتھ جن کی تعداد تین سو سے زائد تھی نکلے۔ وادی زعفران میں قافلہ جانے اور ایک لشکر جرار آنے کی اطلاع دیتے ہوئے مشورہ طلب کیا۔ حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہما نے جنگ کرنے کی بات کی۔ حضرت مقداد بن عمرو الاسودی رضی اللہ عنہ نے کہا ’’اے اللہ کے رسول! ہم وہ نہیں جو قوم موسیٰ کی طرح کہیں کہ اے موسیٰ! تم اور تمہارا خدا جاکر لڑو، ہم یہیں بیٹھے رہیں گے۔ ہم تو آپ پر ایمان لائے ہیں، لے چلئے اسی جانب جہاں اللہ نے حکم دیا ہے، ہم تیار ہیں‘‘۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی طرف نگاہ کی۔ حضرت سعد نے کہا کہ ’’یا رسول اللہ! آپ حکم دیں تو ہم سمندروں میں چھلانگ لگادیں گے، ہم کو حکم دیں، ہم برگ الغمار تک پہنچ جائیں‘‘۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دعاء دی اور نصرت خداوندی کی خوش خبری سنائی۔ میدان کارزار میں اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے مدد فرمائی۔ بڑے گھمنڈی تہہ تیغ ہوئے اور مسلمانوں کو عظیم کامیابی نصیب ہوئی۔