معروف و منکرات کی ذمہ داری، خیر امت کافریضہ

مفتی سید صادق محی الدین فہیمؔ

قرآن پاک میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے معروف کو پھیلانے اور منکر کو روکنے اور اس کو مٹانے کی تلقین کی ہے۔ ’’امر بالمعروف و نہی عن المنکر‘‘ قرآن کی ایک خاص اصطلاح ہے جس کے معنی خیر و بھلائی کو عام کرنے اور برائیوں کو مٹانے کے ہیں۔ اسلام کے پورے نظام میں اس کی بڑی اہمیت ہے خواہ وہ اسلام کے بنیادی عقائد، عبادات و احکام سے ہوں یا معاشی و معاشرتی شعبہ سے متعلق ہدایات سے ہوں کیونکہ اسلام انسان کی ساری زندگی پر محیط ہے کہ وہ پورے اسلامی رنگ ڈھنگ سے ہو۔ اسلام کو زندگی کے سارے شعبوں میں جاری کیا جائے اور امت مسلمہ معروف پر عمل پیرا رہتے ہوئے منکرات سے اپنا دامن بچائے۔ اس کی دوسری ذمہ داری یہ ہے کہ اسلام کا پیغام توحید اور اس کے وہ سارے احکام جو معرووف کے دائرے میں آتے ہیں ان کو دوسروں تک پہنچائے اور منکرات کی قباحت وشناعت سے ان کو واقف کروائے، معروف کو پھیلانے اور منکرات سے انسانوںکو بچانے کی کوشش و دعوت بھی معروف کے حکم میں ہے۔

اللہ سبحانہ نے انسان کو مکلف بنایا اور اختیار دیا ہے اور یہ اختیار کی آزادی اس دنیا میں بغرض امتحان ہے۔ ’’دنیا کی زندگی کھیل تماشہ، زیب وزینت، آپسی فخر و غرور، مال و دولت میں تکاثر و زیادتی کا اظہار ہے کہ اس کی مثال اس برسات اور اس کی پیداوار جیسی ہے جو کسانوں کو بھلی معلوم ہوتی ہے لیکن جب وہ پیداوار سوکھ جاتی ہے تو وہ زرد رنگ میں دکھائی دیتی ہے جو بالکل ریزہ ریزہ ہوجاتی ہے‘‘۔ (الحدید؍۲۰)
یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا کی زندگی بڑی تیزی کے ساتھ روبہ زوال رہتی ہے جیسے کھیتیاں دم بھر کو شاداب ہوتی ہیں تو ان کا ہرا بھرا ہونا دل کو موہ لیتا ہے، دیکھنے والے اور خاص طور پر کسان اس سے بڑے مسرور ہوتے ہیں لیکن ان کھیتیوں کو خشک ہوکر ریزہ ریزہ ہونے میں دیر نہیں لگتی۔ یہی حال دنیا اور دنیا کے آسائشی ساز و سامان کا ہے جوانسان کی مختصر زندگی کے کچھ حصہ میں موسم بہار کی طرح باعث رونق و زینت ہوتے ہیں اور دلوں کو لبھاتے ہیں، پھرجب وہ چھن جاتے ہیں تو زندگی کے باغ و بہار خزاں آلودہ ہوجاتے ہیں، اس لئے اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے امت مسلمہ کو جو خیر امت کا منصب دیا ہے وہ اسی لئے ہے کہ دنیا میں معروف کو پھیلائے اور ہر طرح کی برائیوں سے سماج کو پاک و صاف رکھنے کی کوشش کرے۔

حضرت لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو جس بات کی نصیحت کی ہے اللہ سبحانہ نے سورۂ لقمان میں اس کا ذکر فرمایا ہے۔ ’’اے میرے پیارے بیٹے! نماز قائم کرو، اچھے کاموں کی نصیحت کرتے رہو، برے کاموں سے منع کیا کرو اور جب مصیبت تم پر آئے تواس پر صبر کرتے رہو کہ یہ بڑے اہم امور سے ہے‘‘ (لقمان؍۱۷) اس آیت پاک میں اقامت صلوٰۃ، امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور مصائب و مشکلات میں صبر کی تلقین کا خاص طور پر ذکر ہے، چونکہ یہ خیر کے اہم اور بنیادی امور ہیں۔
اقامت صلوٰۃ سے شخصیت کی تعمیر مقصود ہے، شخصیت کی تعمیر نماز کے بغیر ممکن نہیں، چونکہ نماز برائیوں سے روکتی ہے۔ ارشاد باری ہے: ’’ان الصلوٰۃ تنھی عن الفحشاء والمنکر‘‘ (العنکبوت؍۴۵) اقامت صلوٰۃ سے مراد نماز کو اس کے پورے احکام و آداب کی رعایت رکھتے ہوئے پورے خشوع و خضوع کے ساتھ اس کے ارکان کو عمدگی کے ساتھ اد کرنا اور اس نماز کی ادائیگی کے اہتمام سے اپنی ساری زندگی کو پابند ڈسپلن بنانا ہے، تب ہی اس نماز کا مقام احسان پر رہتے ہوئے ادا ہونا متصور ہوگا، یعنی اللہ سبحانہ مجھے دیکھ رہا ہے کا استحضار احسان کہلاتا ہے۔ یہ استحضار صرف نماز ہی کی حد تک ہو کافی نہیں بلکہ زندگی کے ہر شعبہ میں مطلوب ہے، نماز و عبادات کے اہتمام کی طرح معاشی و معاشرتی زندگی میں بھی اس کا اہتمام لازم ہے، اس مطلوب کی تکمیل سے انسانیت کی عمدہ تعمیر کی امید کی جاسکتی ہے۔ نفس کوئی معمولی چیز نہیں ہے کہ بآسانی اس کی اصلاح ہوجائے۔ خواہشات نفس کا ایک خوشنما جال ہے جو انسان کے اطراف پھیلا ہوا ہے، اس کی خوشنمائی و خوش رنگی اپنی طرف بلاتی رہتی ہے۔ ایسے میں خواہشات نفس کے خلاف جنگ کرنے کے لئے اپنے آپ کو آمادہ رکھنا اور سرکش نفس کو اس کی کوتاہیوں پر سرزنش کرتے رہنا بڑے حوصلہ کی بات ہے۔

اس مہم کو وہی سر انجام دے سکتے ہیں، جو ہر آن یہ استحضار رکھتے ہوں کہ اللہ سبحانہ ہم کو دیکھ رہا ہے۔ اپنی شخصیت کی تعمیر کے بعد دوسری ذمہ داری انسانوں کی اصلاح کی ہے اور یہ فریضہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے تکمیل پاسکتا ہے۔ انسانیت کا وہ گروہ جو صلاح و تقویٰ سے غافل، نیکی و پارسائی سے کنارہ کش رہا ہو، طغیان و عصیان جن کی زندگی کا مقصد بن گیا ہو، ان کو صلاح و فلاح کے راستے پر لگانا، نیکی و پارسائی اور تقویٰ و پرہیزگاری کا تخم ان کے دلوں میں بونا، یہ وہ کام ہیں جو خیر امت کے منصب پر فائز ہونے کی وجہ امت مسلمہ پر وجوب کے درجہ میں ہے۔ معروف کو پھیلانا اور منکرات میں پڑنے سے افراد انسانیت کو بچانا، یہ اتنا اہم ترین فریضہ ہے کہ اس کی ادائیگی میں کوتاہی دنیا اور آخرت میں نقصان کا باعث ہے۔ اسلام کا یہ پیغام سارے عالم کا مقدر بنے اور دنیا معروف سے بھر جائے اور منکرات سے پاک ہوجائے، اس کوشش میں کامیابی کے لئے نیکی و پارسائی اور خیرو صلاح کے اس قدر دِیے روشن کردیے جائیں کہ فواحش و منکرات کے جلنے والے چراغ خود بخود بجھ جائیں۔ فواحش و منکرات کی حددرجہ اشاعت کی وجہ دلوں کی دنیا تاریک ہوگئی ہے اور دلوں کے آبگینہ پر اس کے گردوغبار کی تہ جم چکی ہے۔ معروف کو پھیلاکر اور منکرات سے انسانیت کو بچاکر پھر سے دلوں کی تاریک دنیا کو روشن کرنے اور آئینہ دل پر برائیوں کی جمی اس گردوغبار کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ انسانی قافلہ جو اسلام کے پاکیزہ احکام اور اس کے اہم ترین فریضہ ’’معروف و منکر‘‘ کی عدم پہچان کی وجہ تاریک راہوں میں بھٹک رہا ہے، وہ بھی چراغ ہدایت سے روشنی حاصل کرنے کے لئے بے چین ہے۔ اس خیر امت کا فرض ہے کہ وہ عصیان و طغیان کی تاریک راہوں میں ایمان کے نور اور نیکی و تقویٰ کے چراغ روشن کرے اور یہ چراغ وہی روشن کرسکتے ہیں جن کے سینے ایمان سے معمور، جن کی سیرت پاکیزہ، کردارپختہ اور جن کا ظاہر و باطن یکساں ہو اور وہ فراست ایمانی و بصیرت قلبی کے حامل ہوں۔

’’بے شک اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہر معاملہ میں انصاف کرنے، ہر ایک کے ساتھ خیروبھلائی سے پیش آنے اور رشتہ داروں کے ساتھ عمدہ و بہتر سلوک کرنے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، بری باتوں اور سرکشی سے منع فرماتا ہے۔ ’’اللہ سبحانہ تم کو نصیحت کرتا ہے، تاکہ تم نصیحت قبول کرو‘‘ (النحل؍۹۰)
معروف کو پھیلانے میں ہر ایک کے ساتھ عدل و انصاف، احسان و مہربانی اور فیاضی کے ساتھ پیش آنے اور رشتہ داروں کے حقوق ادا کرنے کا بڑا اہم کردار ہے، معاشرہ میں صلاح و فلاح کے قیام کے لئے ان کی بڑی ضرورت ہے۔ حقوق کی ادائیگی بھی مرتبہ احسان کو پیش نظر رکھ کر کی جائے، انسانیت کو اس کے حق سے زیادہ دیا جائے، کسی سے کوتاہی ہو تو عفوودرگزر سے کام لیا جائے، یہ وہ سنہرے نقوش ہیں جو نہ صرف بغض و حسد اور دشمنی و عناد کے شعلوں کو بھڑکنے نہیں دیتے، بلکہ دلوں میں انس و محبت کے گل کھلاتے ہیں۔ ایسے پاکیزہ کردار انسان جب معاشرہ میں بکثرت ہوجائیں تو پھر فواحشات و منکرات کا دروازہ خود بخود بند ہونے لگتا ہے۔ بغاوت و سرکشی، کینہ و حسد، تکبر و ظلم، ناروا غیظ و غضب، جبروتشدد وغیرہ جیسے برے عناصر پیٹھ پلٹا کر خود بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔