ابوزہیر سید زبیر ہاشمی نظامی
واقعہ معراج یقیناً حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اہم معجزات میں سے ایک اہم اور خصوصی معجزہ ہے، جو کسی اور نبی یا رسول کو عطا نہیں کیا گیا۔ کیونکہ اس واقعہ معراج میں اللہ تعالی نے اپنے محبوب علیہ السلام کو جو اعزاز اور دیدار و ہمکلامی کا شرف بخشا، وہ کسی اور نبی کو نہیں بخشا گیا۔ چنانچہ سورۂ بنی اسرائیل کی پہلی آیت پاک میں فرمایا گیا ہے جس کا ترجمہ یہ ہے: ’’پاک ہے وہ ذات جو لے گیا اپنے بندہ (خاص) کو رات کے کچھ حصہ میں مسجد حرام سے مسجد اقصی کی طرف، جس کے اطراف ہم نے برکتیں رکھیں، تاکہ ہم اسے اپنی نشانیاں دکھائیں۔ بے شک وہی سننے والا اور دیکھنے والا ہے‘‘۔
(سورہ بنی اسرائیل۔۱)
مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک کے سفر کو اسراء اور مسجد اقصیٰ سے آسمانوں اور عرش تک کے سفر کو معراج کہا جاتا ہے۔ چوں کہ مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک کا سفر نص قطعی یعنی قرآن سے ثابت ہے، اس لئے اس کا انکار کرنے والا کافر اور اسلام سے خارج ہے اور واقعہ معراج جو صحیح اور کثیر احادیث سے ثابت ہے، اس کا انکار کرنے والا فاسق، بدعتی اور گمراہ ہے۔
سب سے اہم اور قابل غور طلب بات یہ ہے کہ سفر معراج مکمل طور پر چند لمحوں میں طے ہو جاتا ہے، جیسا کہ مفسرین کرام ’’لَیْلاً‘‘ کی تفسیر میں فرماتے ہیں اور اس سفر کے لئے رات کو منتخب کیا گیا، دن کو نہیں۔ وہ بھی ایسی (۲۷ کی) رات کہ جس میں نہ چاند ہوتا ہے اور نہ چاندنی، جس سے یہ بتلانا مقصود ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ چاند کے محتاج ہیں اور نہ چاندنی کے۔ چنانچہ کہا گیا ہے کہ ’’آپ ہی کی ذات یا چہرہ مبارک سے چاند کو روشنی ملی، بلکہ کائنات کی ہرچیز آپ ہی کے نور سے جگمگا رہی ہے‘‘ اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی بھی مخلوق کے محتاج نہیں، بلکہ تمام کائنات آپ کی محتاج ہے۔ ہر شے کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیض ملا اور آپ کو اللہ تعالی نے اپنے خاص فیض و کرم اور رحمت سے ایسا نوازا کہ ’’واﷲ یعطی وانا قاسم‘‘ کے لحاظ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی سے لیتے ہیں اور مخلوق کو بانٹتے ہیں۔ گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا میں کسی سے کچھ لینے کے لئے نہیں، بلکہ سب کو دینے کے لئے بھیجا گیا ہے۔ چنانچہ واقعہ معراج بھی آپ کی شان یکتائیت و انفرادیت پر دلالت کرتا ہے کہ سر کی آنکھوں سے بیداری کے عالم میں اور ہوش و حواس کے ساتھ رب کا دیدار کرنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصی شان ہے۔
’’ اسری بعبدہ لیلاً ‘‘کی مختصر و جامع وضاحت
حضرت محدث دکن سیدعبداﷲ شاہ نقشبندی علیہ الرحمہ اپنی تصنیف کردہ کتاب بنام ’’معراج نامہ‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں کہ معراج دن میں ہونا چاہئے تھی، رات میں کیوں ہوئی: اس کی وجہ یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ نے دوجوہر پیدا کئے، ایک ’’سیاہ‘‘ دوسرا ’’منور‘‘ منور سے تمام نور نکال لیا، اس کا بنایا ’’دن‘‘ ، باقی سے بنایا ’’دوزخ‘‘۔ اور سیاہ جوہر سے تمام سیاہی نکال کر، اس سے بنائی ’’رات‘‘ ، باقی جونور ہی نور، رہ گیا، اس سے بنائی ’’جنت‘‘۔
٭ اس لئے جنت میں رات نہیں۔
٭ اور دوزخ میں دن نہیں۔
٭ دن دوزخ کا ، رات جنت کا جز ہیں۔
٭ اس لئے دن میں دوزخ کی طرح پریشانیاں اور افکارات ہیں۔
٭ اور رات میں جنت کی طرح اطمینان اور سکون ہے۔
٭ دن دوزخ کے جوہر سے بنا ہے، اس لئے خدمت ِ خلق کے لئے ہے۔
٭ رات جنت کے جوہر سے بنی ہے، اس لئے خدمت ’’خالق ‘‘ کے لئے ہے۔
’’لنریہٗ من اٰیتنا‘‘ کی عملی تفسیر
حضرت محدث دکن سید عبداللہ شاہ نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب معراج نامہ میں ’’لنریہٗ من اٰیتنا‘‘ کی تفصیل کچھ اس طرح تحریر کئے ہیں کہ :
عجائبات قدرت دکھلانے کیلئے رجب المرجب کی ستائیس رجب، پیرکی شب بھی عجیب شب تھی۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام پر یہ احکام نازل ہوئے:
پہلاحکم: ائے جبرئیل آج کی رات عبادت کی نہیں ہے، اپنے عبادت خانہ سے نکلو، آج تمہاری عبادت ایک خدمت کے صلہ میں معاف کی جاتی ہے۔
دوسرا حکم: اے جبرئیل، میکائیل سے کہو کہ تم بھی اپنے کاروبار چھوڑدو۔
تیسرا حکم: اسرافیل سے بھی کہو کہ تم بھی صور رکھدیں۔
چوتھا حکم : عزرائیل کو بھی یہ حکم پہنچاؤ کہ قبض ارواح بند کردیں۔
پانچواں حکم : عرش کو لباس قُدس پہنادو۔
چھٹواں حکم: حوروں سے کہو بناؤ سنگھار کرکے جواہرات کے طبق نثار
کرنے کیلئے لے کر کھڑی رہیں۔
ساتواں حکم : مالک سے بولو ، دوزخ کے دروازوں کو قفل لگادے۔
آٹھواں حکم : تمام قبروں سے عذاب اٹھالو۔
نواں حکم : اے آسمانو تم فخر و ناز کا پھریرا ہوا میں اڑاؤ ۔
دسواں حکم : رحمت کے دروازے چوپٹ کھول دو ۔
گیارھواں حکم: بلاؤں اور مصیبتوں کو اٹھادو ۔
بارھواں حکم : ایک براق بھی جنت سے لیتے جاؤ۔
(از: معراج نامہ ،مصنف حضرت ابو الحسنات سید عبد اللہ شاہ نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ)
اﷲ تعالیٰ سے دعاء ہے کہ ہم تمام کو سفر معراج پر کامل ایمان اور عقیدہ رکھنے کی توفیق عطافرمائے۔ اٰمین
zubairhashmi7@gmail.com