معاشی گراو ٹ کا سلسلہ کب رُکے گا؟

تمہارے محل پہ ہوگا ہجوم بستی کا
بھرم جو کھول کے رکھ دوں گا سرپرستی کا
معاشی گراو ٹ کا سلسلہ کب رُکے گا؟
ہندوستان کی معیشت ایسا لگتا ہے کہ مسلسل گراوٹ کا شکار ہوتی جا رہی ہے اور حکومت کے پاس اس کو سنبھالنے اور صورتحال کو سدھارنے کی کوئی تدبیر نہیں رہ گئی ہے ۔ حکومت صرف خاموش تماشائی کی طرح مارکٹوں کے اتار چڑھاو اور ملک کی معیشت کے زوال کو دیکھنے پر مجبور ہوگئی ہے ۔ ملک میں جو حالات پیدا ہوتے جا رہے ہیں وہ انتہائی تشویشناک کہے جاسکتے ہیں۔ عوام کو مسلسل مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور یہ مسائل کم ہونے کی بجائے بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ ان مسائل کو حل کرنے میں حکومت پوری طرح بے بس نظر آتی ہے ۔ اس کے پاس کوئی حل نہیں ہے ۔ یہ درست ہے کہ حکومت کے پاس کوئی جادو کی چھڑی نہیں ہے لیکن معمولی سا بھی کنٹرول حکومت کے پاس نظر نہیںآتا ۔ حکومت محض ایک تماش بین کی طرح معاشی صورتحال کو ابتر ہوتے دیکھتی جا رہی ہے ۔ ملک میں جہاں ہر شعبہ مشکل صورتحال کا شکار ہے وہیں حکومت کے دعوے بھی نہیں رکتے ۔ حکومت ملک کی معیشت کے برطانیہ کی معیشت کے پار نکل جانے کے دعوے کرتی ہے ۔ یہ دعوے حقیقت کا روپ کس طرح سے دھاریں گے اس کا کوئی راستہ حکومت کے پاس نہیں ہے ۔ ہندوستانی روپئے کی قدر میں مسلسل گراوٹ آتی جا رہی ہے ۔ یہ روپیہ جس قدر تیزی سے گرتا جا رہا ہے اس سے یہ اندیشے پیدا ہوگئے ہیں کہ کہیں ملک میں معاشی ایمرجنسی کی صورتحال نہ پیدا ہوجائے ۔ ایک طرف روپیہ گرتا جا رہا ہے تو دوسری طرف پٹرولیم اشیا کی قیمتیں مسلسل بڑھتی جا رہی ہیں۔ آج حکومت نے ایک بڑا تیر مارتے ہوئے کچھ اکسائز ڈیوٹی میںکمی کی ہے ۔ اس سے بھی ملک کے عوام کو حالانکہ راحت ملے گی لیکن حکومت کا یہ فیصلہ عوام کے مفاد سے زیادہ اپنے مفاد میں نظر آتا ہے کیونکہ اب کسی بھی وقت ملک کی چار پانچ ریاستوں میں انتخابات کا شیڈول جاری ہوسکتا ہے ۔ حکومت اس سے قبل ایک بار پھر عوام کو دھوکہ دینے میں جٹ گئی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ نہ صرف مرکزی حکومت نے بلکہ بی جے پی کے اقتدار والی کچھ ریاستوں نے بھی اپنے محاصل میں کمی کرتے ہوئے عوام کو قدرے راحت دینے کا فیصلہ کیا ہے اور یہ عارضی ہی ہوسکتا ہے ۔
حکومت کی یہ روایت رہی ہے کہ جب کبھی کسی ریاست میں انتخابات کا ماحول ہوتا ہے پٹرولیم قیمتوںمیں اضافہ کا سلسلہ روک دیا جاتا ہے ۔ جیسے ہی پولنگ ہوجاتی ہے پھر یہ قیمتیں مسلسل بڑھتی جاتی ہیں اور حکومت واضح طور پر کہتی ہے کہ ان قیمتوں پر قابو پانا اس کے ہاتھ میں نہیں ہے ۔ اس کے علاوہ ملک میں اسٹاک مارکٹ کی صورتحال مسلسل بگڑتی جا رہی ہے ۔ یومیہ لاکھوں کروڑ روپیہ سرمایہ کاروں کا لوٹا جا رہا ہے ۔ مسلسل گراوٹ کی وجہ سے سرمایہ کاروں کی کمر ٹوٹ رہی ہے اور جو کمپنیاںہیں وہ پورے استحکام کے ساتھ اپنی جگہ کھڑی ہیں۔ ان کمپنیوںکے استحکام پر کوئی اثر نہیں پڑ رہا ہے ۔ صرف سرمایہ کار متاثر ہوتا جا رہا ہے ۔ بحیثیت مجموعی ملک کے عوام ہی کی کمر ٹوٹ رہی ہے اور سرمایہ دار طبقہ ان اثرات سے اورا ن پریشانیوں سے پوری طرح سے محفوظ ہے ۔ کارپوریٹ طبقہ کو حکومت کی جانب سے مسلسل مراعات دی جارہی ہیں۔ انہیں کسی نہ کسی طریقے سے فائدہ پہونچانے کا عمل پوری سرعت کے ساتھ جاری ہے ۔ خاص طور پر کارپوریٹس کے ایک مخصوص گوشے پر حکومت کی مہربانیاں چل رہی ہیں۔ کچھ مخصوص کارپوریٹس اور تاجروںکو ہزاروں کروڑ روپیہ لوٹنے اور پھر ملک سے فرار ہونے کا پورا موقع دیا جار ہا ہے ۔ حیرت تو اس بات کی ہے کہ اس ملک کے وزیر فینانس کو ملک سے فرار ہونے والے اپنے ارادوں سے باخبر بھی کردیتے ہیں لیکن ملک کے وزیر فینانس ان پر کوئی کارروائی نہیں کرتے اور نہ ہی کسی کو اس کی ہوا لگنے دیتے ہیں۔
ملک میں بیروزگاری کی شرح مسلسل بڑھتی جار ہی ہے ۔صنعتی پیداوار متاثر ہو رہی ہے ۔ نئے روزگار دستیاب نہیں ہو رہے ہیں۔ نوجوان پریشان ہیں۔ مہنگائی سے گھریلو بجٹ تہس نہس ہو رہا ہے ۔ پکوان گیس کی قیمتیں بھی مسلسل بڑھتی جا رہی ہیں۔ ادویات مریضوںکی پہونچ سے باہر ہو رہی ہیں۔افراط زر کی شرح میں اونچ نیچ کا سلسلہ جاری ہے ‘ روپیہ مسلسل گرتا جا رہا ہے اور اس کے باوجود حکومت بے فکر ہے اور اس کے پاس ایسا کوئی میکانزم نظر نہیںآتا جس کے ذریعہ صورتحال کو قابو میں کیا جاسکے ۔ حکومت کو خواب غفلت سے بیدار ہوکر معیشت کی حالت سدھارنے کیلئے پوری سنجیدگی کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے ۔