معاشی پالیسی کا ازسرنو جائزہ

بہار اسمبلی انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی شکست فاش اور پارلیمنٹ میں اصلاحات کو دھکا لگنے کے بعد مرکزی حکومت اپنی معاشی پالیسی کے خدوخال کا ازسرنو جائزہ لینے پر مجبور ہوئی ہے۔ مرکزی بجٹ سال 2016 ء فبروری میں پیش ہوتا ہے اور اس بجٹ میں کسانوں اور غیر منظم ورکرز پر توجہ مرکوز کی جائے گی جو عام طور پر بی جے پی کے زیراثر نہیں سمجھے جاتے ہیں۔ بجٹ سازی کے کام سے جڑے افراد ہندوستان کے چار سو ملین غیر منظم ورکرز کے لئے سوشل سکیوریٹی اسکیم کو قطعیت دے رہے ہیں۔ ورکرز اپنے اسمارٹ کارڈس کے ذریعہ اس سے استفادہ کرسکیں گے۔ اس بات کا منصوبہ بھی ہے کہ آبپاشی کے لئے فنڈس میں اضافہ کیا جائے گا اور فصل بیمہ اسکیم کو مزید بہتر بنایا جائے گا۔ گزشتہ سال کے عام بجٹ میں روڈس اور ہائی ویز اور ریلویز کے شعبوں میں سرمایہ کاری پر زیادہ توجہ مرکوز کی گئی تھی۔ مسلسل دو سال سے خشک سالی کے حالات ہیں، کسان مسائل سے دوچار ہیں۔ بعض مقامات پر فاقہ کشی کے حالات ہیں۔

دیہی عوام پریشان حال ہیں خاص کر کھیتی باڑی سے جڑے عوام مصیبت سے دوچار ہیں۔ زراعت ہندوستان کی ترقی میں سب سے بنیادی اہمیت رکھتی ہے، اسے نظرانداز کرتے ہوئے ملک کی ترقی کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ بنیادی طور پر ہندوستان زرعی ملک ہے لیکن صنعتی انقلاب سے زراعت پر ضرب لگی۔ شہری ترقی کی کشش نے زراعت کے شعبہ سے وابستہ افراد کو للچایا اور بہت سے کسان صنعت کار بن گئے۔ دیہی علاقوں سے شہری علاقوں کی طرف بڑی تعداد میں عوام کے نقل مقام سے زرعی ترقی پر کاری ضرب لگی۔ خراب موسمی حالات اور پھر زراعت سے کسانوں کی عدم دلچسپی اور شہری اور صنعتی ترقی کی طرف رغبت سے نئے چیلنج درپیش ہوئے ہیں۔ ان تبدیلیوں کے ساتھ زرعی پیداوار میں کمی کی وجہ سے قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے اور غریب اور اوسط طبقات کی زندگی اجیرن ہوگئی ہے۔ برسر اقتدار پارٹی کو اس بات کا شدید احساس ہے کہ ایسے ناسازگار حالات میں آئندہ برسوں میں ملک کی مختلف ریاستوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں رائے دہندوں کا اعتماد حاصل کرنے کے لئے بجٹ کو موافق عوام بنانا ضروری ہے۔ کسانوں اور غیر منظم شعبہ کے ورکرز کو خوش اور مطمئن کرے بغیر آسام، مغربی بنگال، کیرالا، اترپردیش اور ٹاملناڈو میں جہاں اسمبلی انتخابات منعقد ہونے والے ہیں، بی جے پی عوام کی تائید حاصل نہیں کرسکتی۔ ان تمام ریاستوں میں جہاں اسمبلی انتخابات ہونے ہیں، غیر بی جے پی ریاستوں  کا اقتدار ہے اور ان میں سے بعض ریاستوں میں 2014 ء کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی نے شاندار کامیابی حاصل کی تھی۔ اگر عام بجٹ اور ریلوے بجٹ واقعی عوام دوست، موافق کسان، موافق ورکرز ثابت ہوتا ہے تو بی جے پی انتخابات میں اس کا پھل حاصل کرسکتی ہے۔

بہار اسمبلی انتخابات میں بی جے پی نے اپنی شکست سے سبق سیکھنے کی کوشش کی ہے اور پارٹی کا تھنک ٹینک سوٹ بوٹ کی سرکار کا امیج ہٹانے کی تدابیر کا جائزہ لے رہا ہے۔ 2015 ء کے عام بجٹ میں کوئی خاص اصلاحات تجویز نہیں کی گئی لیکن دہلی اسمبلی انتخابات میں عام آدمی پارٹی کے مقابلہ میں بی جے پی کی شکست کے بعد بی جے پی کے اندر اصلاحات کے خلاف آوازیں اُٹھنے لگیں، بنیادی طور پر سابق جن سنگھ اور موجودہ بی جے پی شہروں کی پارٹی ہے۔ سابق میں اٹل بہاری واجپائی اور اب نریندر مودی جیسی مقبول عام شخصیتوں کی کشش کی وجہ سے دیہی عوام نے بی جے پی کو اقتدار کی کرسی تک پہونچایا۔ نریندر مودی سب کا ساتھ سب کا وکاس کے نعرہ کے ساتھ وزیراعظم بنے ہیں اور عوام نے ان کے دلکش وعدوں پر بہت زیادہ بھروسہ کرتے ہوئے ان کی حکومت سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کرلی ہیں اور فوری طور پر وعدوں کی عدم تکمیل کے نتیجہ میں یکے بعد دیگر ہورہے انتخابات میں بی جے پی کے لئے رائے دہندوں میں عام انتخابات جیسا جوش و خروش نہیں دکھائی دے رہا ہے۔ بہار کے انتخابات میں غیر بی جے پی جماعتوں نے متحدہ طور پر مقابلہ کرتے ہوئے بی جے پی کو شکست دی ہے۔ دوسری ریاستوں میں جہاں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں سیکولر پارٹیاں متحد ہونے کی کوشش کریں گی، ان حالات میں بی جے پی کی قیادت یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ عام بجٹ اور ریلوے بجٹ میں عام آدمی کو بہت زیادہ سہولت اور رعایت دیتے ہوئے ان کے دل جیتے جاسکتے ہیں۔ عالمی مارکٹ میں تیل کی قیمت میں مسلسل کمی سے ہندوستانی معیشت پر بوجھ کم ہوا ہے۔ نریندر مودی حکومت کو چاہئے کہ اس کے فوائد عوام میں تقسیم کرے اور جس طرح پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں عالمی سطح پر کمی ہوئی ہے اس سطح سے ملک میں قیمتوں میں کمی کی جائے۔ تقسیم کے عوامی نظام کو مستحکم اور مؤثر بنایا جائے۔ کسانوں اور ورکرز کی فلاح و بہبود پر خاص توجہ دی جائے۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ ہندوستان کے بیرونی زرمبادلہ کے ذخائر مستحکم ہیں، غیر مقیم ہندوستانیوں کی خون پسینے کی کمائی ہندوستانی معیشت کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ غیر مقیم ہندوستانیوں کو آسانیاں اور سہولتیں فراہم کرنے پر بھی حکومت کو توجہ دینی چاہئے۔ غیر مقیم ہندوستانیوں کو ترغیب دی جائے کہ وہ زرعی شعبہ پر بھی توجہ کریں اور زیادہ سرمایہ کاری کی جائے۔