مظلومین کیساتھ انصاف رسانی کی جدوجہد کرنے والا ’’ملک دشمن؟‘‘

اقلیتوں کے ہمدرد دہلی یونیورسٹی کے معذور پروفیسر سائی بابا جیل میں قید ،بے باک پروفیسر سے حکومت خوفزدہ

محمد علیم الدین
حیدرآباد۔ 10 مئی ۔کیا یہ شخص ملک کا سب سے بڑا دشمن ہے؟ جو دو پیروں سے معذور ہے۔ بغیر سہارے چل پھر نہیں سکتا اور اپنی روزانہ ضروریات زندگی کو پورا کرنے کیلئے دوسروں پر انحصار کرتا ہے۔ وہ اپنے ذاتی کام خود نہیں کرسکتااور مختلف بیماریوں کا شکار ہے جسے 20 تا 25 قسم کی ادویات کو روزانہ حاصل کرنا پڑتا ہے۔ یہ شخص دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر مسٹر جی این سائی بابا ہیں۔ پروفیسر سائی بابا کو 9 مئی 2014ء کے دن دہلی یونیورسٹی سے گرفتار کرتے ہوئے ناگپور جیل منتقل کیا گیا اور وہ گزشتہ ایک سال سے جیل میں قید ہے، پھر بھی یہ شخص بہت خطرناک اور ملک کا دشمن مانا جاتا ہے۔ آخر پروفیسر سائی بابا کا جرم کیا ہے؟ اس نے ایسا کیا جرم کیا ہے جس سے اس کو اتنا خطرناک اور ملک دشمن مانا جاتا ہے۔ بچپن ہی سے معذور سائی بابا مغربی گوداوری ضلع سے تعلق رکھتا ہے اور اپنی گرفتاری سے قبل تک دہلی یونیورسٹی میں انگریزی کا لیکچرر تھا۔ سائی بابا نے ملک کے شمال، جنوب ، مشرق، مغرب میں مظلوم عوام کے ساتھ ہوئی ناانصافیوں کے خلاف آواز بلند کی اور اس پروفیسر کا سب سے بڑا گناہ ، حق تلفی کے خلاف آواز بلند کرنا ہے جو نہ صرف حکومتوں ، حکومتوں کو چلانے والے سرمایہ داروں بلکہ یہاں تک کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ بیرون ملک سامراجی طاقتوں کو بھی پسند نہیں آیا۔ پروفیسر سائی بابا ملک میں بلکہ ملک میں برسراقتدار طاقتوں کو اقتدار کی آڑ میں اپنے ناپاک عزائم کو پورا کرنے والوں کے حق میں خطرناک ثابت ہوا۔ معذوری، لاچاری اور بے بسی کو پروفیسر نے کبھی اپنی کمزوری نہیں سمجھا بلکہ ایسے افراد کے لئے مشعل راہ بن کر منظر عام پر آئے جو حقوق انسانی کے لئے سرگرم ہیں۔ اس پروفیسر کی بے باک اور بے خوف نمائندگی نے حکومتوں کو خوف زدہ کردیا، آدی واسیوں کے حقوق کے لئے آپریشن گرین ہنٹ، سلوا جڑم کے علاوہ کشمیری مسلمانوں کی حق تلفی اور ان کے حقوق کے لئے پروفیسر نے ہمیشہ آواز بلند کی۔ ملک میں اقلیتوں ( مسلمانوں؍ عیسائیوں) پر ہوئے حملوں اور قتل عام کے خلاف بھی آواز اٹھائی۔ اس وجہ سے یہ ملک کے لئے حکومت کی نظر میںکافی خطرناک تصور کئے جاتے ہیں ، ۔ پروفیسر سائی بابا کی گرفتاری سے ایک سال قبل ہی جواہر لال نہرو یونیورسٹی، طلبہ، کلچرل کارکن اور معذور شخص ہیم مشرا کو گرفتار کیا گیا اور انہیں بھی ضمانت نہیں دی گئی۔ اس کے علاوہ ایک جرنلسٹ پرشانت راہی، ماروتی اور ایک آدی واسی کارکن کے ہمراہ پروفیسر سائی بابا کے خلاف (یو اے پی اے) قانون کے تحت کیس درج کیا گیا۔ ہیم مشرا، پرشانت راہی کی گرفتاری کے بعد مہاراشٹرا کے گڈچی رول ضلع آہیری میں ایک چوری کے معاملے کی رقم کو دہلی یونیورسٹی کے چین وارڈن (کیڈر والے گواگر مال میں مقیم سائی بابا کے مکان سے ضبط کرنے کی وارنٹ کے ساتھ ایک مرتبہ دھاوا بھی کیا گیا۔ اتنے گھناؤنے الزام پر بھی یہ معذور پروفیسر نے ہر طرح سے تحقیقاتی ایجنسی کا ساتھ دینے کی بات کہی جبکہ سال 2014ء جنوری ایک بار پھر انٹلیجنس کے عہدیداروں نے ایک دن طویل پوچھ تاچھ کی جس پر بھی اس شخص نے عدالت حاضر ہونے اور تحقیقات میں بھرپور مدد کرنے کا تیقن دلایا۔ پولیس نے اپنی خود کی صحت کے لئے دوا حاصل کرنے کیلئے دو افراد پر انحصار کرنے والے اس شخص کو ایک دہشت گرد کی گرفتاری جیسے اقدامات کرتے ہوئے بہت غلط پیغام دیا۔ بالآخر انسانی حقوق کیلئے سرگرم اس پروفیسر کو 9 مئی 2014ء میں گرفتار کرتے ہوئے ناگپور جیل منتقل کیا گیا اور ان کے خلاف سنگین دفعات کے تحت مقدمات درج کئے گئے۔ پروفیسر سائی بابا کی گرفتاری کے خلاف صدائے احتجاج بلند ہوچکا ہے اور اس تحریک سے اب مسلمان بھی جڑ گئے ہیں۔ پروفیسر سائی بابا کو حیدرآباد سے قربت بھی ہے۔ حیدرآباد میں ان کا دورہ ہوا کرتا تھا۔ ایک مسلم عالم دین کے یہاں وہ آیا کرتے تھے۔ مسلم عالم دین کے گھر آنا جانا رہتا تھا۔ ان سے ملاقات کے دوران پروفیسر کی زیادہ تر گفتگو مسلم مسائل اور مسلمانوں پر ہورہے مظالم بالخصوص کشمیری مسلمانوں کی حالت زار، حق تلفی اور ان پر ہورہے مظالم کے تعلق سے ہوتی تھی۔ سامراجیت، فسطائیت، ہندوتوا، طاقتوں کے مخالفین، دانشوروں، ادیبوں، شعراء اور انقلابی گلوکاروں کا کہنا ہے کہ پروفیسر کی گرفتاری انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہی نہیں بلکہ حق کی آواز کو ہمیشہ کیلئے ختم کرنا اور ایسی کوشش کرنے والوں کو ایک علامت کے طور پر پیش کیا جارہا ہے جنہیں ایک سال سے ضمانت نہ دیتے ہوئے جیل میں ہلاک کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔