مظفرنگر ۔16 جنوری ۔ ( سیاست ڈاٹ کام ) مظفرنگر فسادات کو چار ماہ کاعرصہ گزرچکا ہے جہاں مسلمانوں کو قتل کرنے کے علاوہ خواتین کی عصمت ریزی کے واقعات بھی منظرعام پر آنے کے بعد پورے ملک میں غم و غصہ پایا جارہا ہے ۔ گزشتہ ایک دہائی میں مظفرنگر فسادات کو بدترین فسادات سے تعبیر کیا جارہا ہے جس میں زائد از 60 افراد ہلاک اور زائد از 50,000 افراد بے گھر ہوگئے ۔ لیکن اگر ماضی کا جائزہ لیا جائے تو اس وقت ماقبل آزادی کا وہ زمانہ یاد آتا ہے جہاں مسلمانوں کا ایک سنہری دور تھا اور ہر مسلمان تقریباً 10,000تا ایک لاکھ بیگھہ اراضی کا مالک ہوتا تھا ۔ مسلمانوں کا دانشور طبقہ راتوں رات اپنے مکانات اور اراضیات فروخت کرکے وہاں سے منتقل ہوگیا اور اب صورت حال یہ ہے کہ جتنے بھی مسلمان ہیں اُن کے پاس اراضیات نہیں ہیں اور وہ مقامی جاٹوں کے کھیتوں میں صبح 6 بجے تا رات 11 بجے کولہو کی بیل کی طرح کام کرتے ہیں۔ ایسے حالات میں سیاست کی ٹیم جب مظفرنگر پہنچی تو وہاں بازآبادکاری ایک مسئلہ بنا ہوا تھا لہذا مالی امداد کے علاوہ وہاں موجود بچوں کی تعلیمی ضروریات کی تکمیل کیلئے جو اقدامات کئے گئے اُس کے مثبت نتائج سامنے آنے لگے ۔
فسادات سے متاثرہ بچوں کی بنیادی انگریزی تعلیم کیلئے ایک ایجوکیشن سنٹر کا قیام عمل میں آیا ہے اور قیام کے اندرون دو دن 310 نوجوان بچوں نے اس سنٹر میں داخلہ حاصل کیا جبکہ ابتدائی طورپر چار کلاسس کی نگہداشت کے لئے 8 ٹیچرس اور دو معاونین کا تقرر بھی کیا گیا ہے ۔ سیاست کی جانب سے بچوں کو نوٹ بکس کے علاوہ دیگر تعلیمی ساز و سامان بھی مفت فراہم کیا جارہا ہے ۔ علاوہ ازیں بچوں کو کپڑے ، بلانکس اور دیگر روزمرہ کے استعمال کی اشیاء بھی جوگیا کھیڑا اور مظفرنگر کے دیگر علاقوں میں تقسیم کی گئی ہیں۔ بچے بھی بنیادی تعلیم کے حصول میں زبردست دلچسپی کا اظہار کررہے ہیں جو اُن کے تابناک مستقبل کا ضامن ہے ۔ یہاں اس بات کاتذکرہ ضروری ہے کہ سیاست کی جانب سے ایک ٹیم مختلف امدادی اشیاء کے ساتھ مظفرنگر روانہ کی گئی تھی اور ان اشیاء کو اُسی فنڈس کے تحت خریدا گیا تھا جو سیاست کے قارئین کی جانب سے جمع کیا جاتا ہے ۔
اب سیاست نے یکم فبروری 2014 ء تک دو اسکولس اور ایک کمپیوٹر سنٹر کے قیام کی تیاریاں شروع کردی ہیں جس کیلئے متعدد بچوں نے اپنے نام رجسٹر کروائے ہیں۔ سیاست کی ٹیم نے تقریباً 160 خاندانوں میں اشیائے ضروریہ ، بلانکٹس اور ملبوسات تقسیم کئے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اب تک زائد از 400 خاندان اپنے گھروں کو واپس نہیں ہوئے ہیں اور وہ ریلیف کیمپس میں خود کو غیرمحفوط تصور کرتے ہیں ۔ لہذا سیاست نے یہ فیصلہ بھی کیا ہے کہ ملت فنڈ کے ذریعہ متاثرہ خاندانوں کی بازآبادکاری کی جائے ۔ یہاں اس بات کاتذکرہ بیجا نہ ہوگا کہ جب 135 خاندانوں میں حکومت کی جانب سے فی خاندان 5 لاکھ روپئے کی امداد تقسیم کی گئی تو یہاں کے ایسے مسلمان جو زمیندار ہیں انھوں نے اپنی زمینات کی قیمتوں میں یہ سوچ کر اضافہ کردیا کہ جن خاندانوں کو امداد ملی ہے وہ لامحالہ اراضیات کی خریداری میں اپنی رقومات مشغول کریں گے ۔ دوسرے یہ کہ وہ ہندو علاقوں میں جانے سے گریز کریں گے ۔ لہٰذا موقع کا فائدہ اٹھانے کے اس نئے طریقہ پر بھی یہاں کے متاثرہ افراد حیرت زدہ رہ گئے ۔