نئی دہلی ۔ 6 ستمبر (سیاست ڈاٹ کام) یو پی کے اضلاع مظفرنگر اور شاملی کے متاثرین فسادات کے جذباتی زخموںکو جو 3 سال قبل فسادات کی وجہ سے آئے تھے، ہزاروں پناہ گزینوں کا جائیداد کے کاروباریوں کی جانب سے استحصال کیا جارہا ہے۔ یہ تمام پناہ گزین ناقص صحت و صفائی کے حالات میں ناقابل بیان زندگی گذار رہے ہیں۔ جائیدادوں کے کاروباری ان کی بدقسمتی سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ایک این جی او نے دعویٰ کیا کہ اطلاع کے بموجب بازآباد کاری کالونیوں میں جو مغربی یوپی میں فرقہ وارانہ فسادات کے 3 سال بعد قائم کی گئی ہیں، تاحال 60 سے زیادہ انسانی زندگیاں ضائع ہوچکی ہیں اور 40 ہزار سے زیادہ افراد ہنوز بے گھر ہیں۔ این جی او کی رپورٹ جس کا عنوان ’’علحدہ زندگی گذارنا: فرقہ وارانہ تشدد اور مظفرنگر اور شاملی سے جبری بے گھری‘‘ رکھا گیا ہے۔ کہا گیا ہیکہ 65 پناہ گزین کالونیاں قائم کی گئی ہیں جن میں سے 28 مظفرنگر اور 37 شاملی میں ہیں جن میں 29 ہزار 328 افراد مقیم ہیں۔ ان میں سے بیشتر کالونیاں انتہائی ناقص سہولتیں فراہم کرتی ہیں۔ بنیادی عوامی خدمات تک دستیاب نہیں ہے۔ پینے کا پانی اور صفائی کے انتظام نہیں ہے۔ امن برادری کے ہرش مندر نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اکرم اختر چودھری نے اپنے سروے کی رپورٹ جاری کی ہے جو امن برادری اور افکار انڈیا کی جانب سے کروایا گیا تھا۔ یہ رپورٹس انگریزی اور ہندی میں ہے اور سرکاری طور پر لکھنؤ میں اس کی رسم اجراء کل اور دہلی میں 8 ستمبر کو مقرر ہے جبکہ مظفرنگر فسادات کی تیسری سالگرہ ہوگی۔ ان فسادات کا آغاز 7 ستمبر 2013ء کو ہوا تھا۔ ہرش مندر نے کہا کہ ہم صورتحال کو سمجھنا چاہتے ہیں جو فسادات کے بعد پیدا ہوئی ہے۔ اس لئے ہم وہاں گئے تھے اور حالات زندگی کا شخصی طور پر مشاہدہ کیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ پناہ گزین جہنم میں مقیم ہیں۔ یہ سروے گذشتہ 6 ماہ سے جاری تھا جس سے پتہ چلا کہ حکومت نے کوئی بھی ٹھوس کام پناہ گزینوں کے مصائب دور کرنے کیلئے نہیں کیا ہے۔ چودھری نے پناہ گزین کالونیوں کے حالات بیان کرتے ہوئے کہا کہ یہاں پر مقیم افراد ملیریا اور سانپ ڈسنے سے ہلاک ہورہے ہیں۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ اب کئی افراد جنہوں نے مکانات کی تعمیر کیلئے رقم حاصل کی تھی ، پناہ گزینوں کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ ان کیلئے کوئی مکان تعمیر نہیں کیا گی