الہ آباد ہائیکورٹ میں جنرل سکریٹری کل ہند مسلم کونسل کے صدر کی درخواست مسترد
لکھنؤ ۔ 29 مارچ (سیاست ڈاٹ کام) الہ آباد ہائیکورٹ کی لکھنؤ بنچ نے ایک درخواست مفاد عامہ کو مسترد کردیا جس میں گذارش کی گئی تھی کہ ریٹائرڈ جسٹس وشنو سہائے کمیشن کی مظفرنگر فسادات کے بارے میں رپورٹ کو مسترد کردیا جائے۔ 2013ء میں مظفرنگر میں مسلم کش فسادات ہوئے تھے۔ درخواست میں کہا گیا ہیکہ ان فسادات کی سی بی آئی تحقیقات کروائی جائیں۔ جسٹس امریشور پرتاپ ساہی اور جسٹس عطا الرحمن مسعودی پر مشتمل الہ آباد ہائیکورٹ کی ایک ڈیویژن بنچ نے کہا کہ یہ درخواست حسن و قبح سے عاری ہے۔ چنانچہ اس بنیاد پر اسے مسترد کیا جاتا ہے۔ جنرل سکریٹری آل انڈیا مسلم کونسل ایک مقامی صحافی علامہ ضمیر نقوی نے اپنی درخواست کے ذریعہ گذارش کی تھی کہ کمیشن کی رپورٹ کو کالعدم قرار دیا جائے کیونکہ کمیشن کو تحقیقات کیلئے حکومت یوپی نے مقرر کیا تھا۔ مظفرنگر فرقہ وارانہ فسادات کی تفتیش اور تحقیق کے بعد اسے رپورٹ داخل کرنے کی ہدایت دی تھی۔ اس درخواست کی بنیاد یہ ظاہر کی گئی تھی کہ جسٹس وشنو سہائے سبکدوش جج اور سابق کارگذار چیف جسٹس آف الہ آباد ہائیکورٹ ہیں، انہیں اس کمیشن کی قیادت کرنے کا اختیار نہیں تھا کیونکہ وہ تحفظ انسانی حقوق قانون 1998ء کی دفعہ 24(3) کے تحت مرکزی حکومت یا ریاستی حکومت ملازمت نہیں کرسکتے۔ اس لئے ان کا یہ تقرر جو حکومت یو پی نے کیا تھا، غیرقانونی قرار پاتا ہے اور اس کی داخل کردہ رپورٹ اس لئے کالعدم قرار دیئے جانے کے قابل ہے۔ درخواست گذار کے وکیل اشوک پانڈے نے کہا کہ اس کے نتیجہ میں رپورٹ بھی ناقابل قبول اور غیرقانونی ہوجاتی ہے۔ سرکاری وکیل نے کہا کہ یہ رپورٹ پیش کی جاچکی ہے اور اسے ریاستی مقننہ کے دونوں ایوانوں میں منظوری بھی حاصل ہوچکی ہے۔ رپورٹ کی بنیاد پر ریاستی حکومت اقدامات بھی کررہی ہے اس لئے اس مرحلہ پر رپورٹ کی تنقید کا مطالبہ درست نہیں ہے۔ عدالت نے دونوں فریقین کے وکلاء کے مباحث کی سماعت کے بعد کہا کہ جہاں تک سی بی آئی تحقیقات کی درخواست کا سوال ہے ، کسی مناسب مواد کے بغیر جو ریکارڈ پر موجود ہو، یہ عدالت کسی بھی رپورٹ کو کالعدم قرار نہیں دے سکتی۔ چنانچہ یہ درخواست مسترد کی جاتی ہے کیونکہ اس درخواست میں کوئی ٹھوس مواد موجود نہیں ہے۔